نور کا کھلونا
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! رہا چاند جس پرسائنسدان اب پہنچنے کا دعویٰ کررہا ہے وہ چاند تو میرے پیارے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے تابِعِ فرمان ہے۔ چُنانچِہ’’دَلائِلُ النُّبُوَّۃ‘‘میں ہے : سلطانِ دوجہان کے چچا جان حضرتِ سیّدُنا عباس بن عبدُ الْمُطَّلِب رضی اللہ تعالٰی عنھما فرماتے ہیں ، میں نے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں نے آپ (کے بچپن شریف میں آپ ) میں ایسی بات دیکھی جو آپ کی نُبُوَّت پر دَلالت کرتی تھی اور میرے ایمان لانے کے اَسباب میں سے یہ بھی ایک سبب تھا۔ چُنانچِہ میں نے دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمگہوار ے(یعنی پنگھوڑے) میں لیٹے ہوئے چاند سے باتیں کررہے تھے اور جس طرف آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماُنگلی سے اِشارہ فرماتے چاند اُسی طرف ہوجاتا تھا۔ سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا : ’’میں اس سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھ سے باتیں کرتا تھا اور مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور میں اس کے گرنے کی آواز سنتا تھا جبکہ وہ عرشِ اِلٰہی عَزَّ وَجَلَّ کے نیچے سَجدے میں گرتا تھا۔‘‘ (دلائلُ النّبوۃ للبیہقی ج ۲ ص ۴۱ )
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :
چاند جُھک جاتاجِدھر اُنگلی اُٹھاتے مَہد میں کیا ہی چلتا تھا اِشاروں پرکِھلونا نورکا
ایک مَحَبَّت والے نے کہا ہے : ؎
کھیلتے تھے چاند سے بچپن میں آقا اِسلئے یہ سراپا نور تھے وہ تھا کھلونا نور کا