پہلے سفرِ معراج میں چاند سے بھی وَراء ُ الوَراء( یعنی دور سے دور) تشریف لے جاچکے ہیں۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہکے عرس شریف کے موقع پر دارُالعلوم امجدیہ عالمگیر روڈ باب المدینہ کراچی میں منعقد ہونے والے ایک مُشاعِرے میں شرکت کا موقع ملاجس میں حدائقِ بخشش شریف سے یہ ’’مِصرعِ طرح‘‘ رکھا گیا تھا:
سَر وُہی سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
حضرتِ صَدرُالشَّریعت،بَدرُالطَّریقت ، مصنِّفِ بہارِ شریعت ،خلیفۂ اعلیٰ حضرت، مولانا مفتی محمداَمجد علی اعظمی صاحِب عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکے شہزادے مُفسِّرِ قرآن حضرتِ علّامہ عبدُ المصطفیٰ اَزہری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے اس مُشاعِرہ میں اپنا جو کلام پیش کیا تھا اُس کا ایک شِعر مُلاحَظہ ہو:
کہتے ہیں سَطْح پہ چاند کی اِنسان گیا عرشِ اعظم سے وَراء طیبہ کا سلطان گیا
یعنیکہا جارہا ہے کہ اب انسان چاند پر پہنچ گیاہے!سچ پوچھو تو چاند بہت ہی قریب ہے، میرے میٹھے مدینے کے عَظَمت والے سلطان،شَہْنَشاہِ زمین و آسمان، رَحمتِ عالمیان،سردارِ دوجہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممِعراج کی رات چاند کو پیچھے چھوڑتے ہوئے عرشِ اعظم سے بھی بَہُت اُوپر تشریف لے گئے ۔
عرش کی عَقْل دَنگ ہے چَرخ میں آسمان ہے جانِ مُراد اب کدھر ہائے ترا مکان ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد