Brailvi Books

تذکرۂ جانشینِ امیرِاہلِ سُنّت ( قسط اوّل)
2 - 30
  علاج کے لئے کئی بار آپریشن بھی کروا چکے تھے مگر مرض تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ آخری بار جب انہیں  آپریشن کا کہا گیا تو مرض اس قدر شدت اختیار کر چکا تھا کہ ڈاکٹروں کے مطابق بچنے کا امکان  نہ ہونے کے برابر تھاکیونکہ کینسر معدے میں 95 فیصد تک اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا ۔  ڈاکٹروں نے آپریشن کیا ، دورانِ آپریشن  زخم کے پھٹ جانے کی وجہ سے معدہ  ہی نکال دیا گیا اور اس کی جگہ مصنوعی معدہ ( colostomy bag) لگا دیا ۔  ڈاکٹر میری زندگی سے اتنے نااُمید تھے کہ گھر والوں کو تاکید کر دی کہ جہاں تک ہو سکے  ان کی ہر خواہش پوری کی جائے البتہ بھاری اور دیر سے ہضم ہونے والی غذاؤں سے اجتناب کیا جائے ۔ ان اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ اب میری زندگی موت کے انتظار میں گزر رہی تھی ۔  ایسے میں بس یہ خواہش تھی کہ جب لحد میں جاؤں تو چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی سجی ہو مگر ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ کینسر کی وجہ سے میری داڑھی ، پلکوں اور بھنوؤں سمیت سارے جسم کے بال جھڑ چکے تھے ۔  
	اللہ کریم کا مجھ پر کرم ہوا اور جانشینِ امیرِ اہلِ سنّت  حضرت مولانا ابواُسید عبید رضا عطاری مدنی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے ملاقات کی صورت بن گئی ۔  میں  اس وقت اتنا بے بس اور مفلوج ہو چکاتھا کہ چار اسلامی بھائی مجھے اٹھا کر ان کی خدمت میں لائے ۔  جانشینِ امیرِ اہلِ سُنّت  کی خدمت میں میں نے داڑھی سے متعلق اپنی آرزو بیان کی ۔ آپ نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرا سر اپنی گود میں لیا اور کچھ دم کرنے لگے ، دم کرتے وقت  آپ اپنی داڑھی اور زلفوں کو چھوتے اور ہاتھ میرے چہرے  اور سر پر مَلتے ۔  کچھ دیر