فارغ ہوکر سر ہند تشریف لائے۔ (ایضاً ص۳۲، ۱۵۹ مُلَخَّصًا)
نیکی کی دعوت کا آغاز
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے یوں تو قیام آگرہ کے زمانے ہی سے نیکی کی دعوت کا آغاز کردیا تھا، لیکن 1008ھ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیسے بیعت کے بعد باقاعدہ کام شروع فرمایا۔ عہدِ اکبری کے آخری سالوں میں مرکز الاولیا لاہور اور سرہند شریف میں رہ کر خاموشی اور دور اندیشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہے اس وقت علانیہ کوشش کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ جابرانہ اور قاہرانہ حکومت کے ہوتے ہوئے خاموشی سے کام کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا لیکن حضرت مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے یہ خطرہ مول لے کر اپنی کوششیں جاری رکھیں اورحضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مکی زندگی کے ابتدائی دور کو پیش ِ نظر رکھا۔ جب دورِ جہانگیری شروع ہوا تو مدنی زندگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے برملا کوشش کا آغاز فرمایا۔ حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے نیکی کی دعوت اور لوگوں کی اِصلاح کے لیے مختلف ذرائع استعمال فرمائے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سنت ِ نبوی کی پیروی میں اپنے مریدوں ، خلفااور مکتوبات کے ذریعے اس تحریک کو پروان چڑھایا۔ (سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی ص۱۵۷ ملخّصًا)
امام غزالی کے گستاخ کو ڈانٹا (حکایت)
ایک مرتبہ ایک شخص حضرت حضرت مجدّدِاَلف ثانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے سامنے