سے درگزر فرماتا ہے اوراس آیت میں توبہ کی قبولیّت کا مُژدہ سنا کر گناہ کرنے والوں کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ‘‘(توبہ:۱۰۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور خود صدقات (اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والامہربان ہے۔
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر ا س سے بھی زیادہ راضی ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی پُرخَطر منزل پر ٹھہرے اور اس کے پاس سواری ہو جس کے اوپر کھانے پینے کی چیزیں ہوں چنانچہ وہ اپنا سر رکھ کر سوجاتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو ا س کی سواری کہیں جاچکی ہوتی ہے،پھر گرمی اور پیاس کی شدت اسے تڑپاتی ہے یا جو اللہ تعالیٰ چاہے(اس کے ساتھ ہوتا ہے)۔پھراس نے کہا میں اپنی جگہ کی طرف لوٹ جاتا ہوں چنانچہ وہ لوٹ آتا اور پھر سو جاتا ہے،جب(بیدار ہو کر) سر اٹھاتا ہے تو ا س کی سواری پاس ہوتی ہے(تو وہ اس پر خوش ہوتا ہے)۔( بخاری، کتاب الدعوات، باب التوبۃ، ۴/۱۹۰، الحدیث: ۶۳۰۸)
اور مسلمانوں کو سچی توبہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ‘‘(تحریم:۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو، قریب ہے کہ تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے مٹا دے اور تمہیں ان باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اگر اس سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے ،علما ء فرماتے ہیں کہ ہر ایک گناہ سے توبہ واجب ہے اور توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی بدی اور معصِیَت سے باز آجائے اور جو گناہ اس