سے صادر ہوا اس پر نادم ہو اور ہمیشہ گناہ سے بچے رہنے کا پختہ ارادہ کرے اور اگر گناہ میں کسی بندے کی حق تَلفی بھی تھی تو اس حق سے شرعی طریقے سے بَریٔ الذِّمہ ہوجائے۔( خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴/۹۶)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’سچی توبہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وہ نفیس شی ٔبنائی ہے کہ ہر گناہ کے اِزالہ کو کافی ووافی ہے۔ کوئی گناہ ایسانہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک و کفر (بھی باقی نہیں رہتے)۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پر اس لئے کہ وہ اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی تھی نادم وپریشان ہو کر فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پورا عزم کرے ،جو چارۂ کار اس کی تَلافی کا اپنے ہاتھ میں ہو بجالائے مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب، سَرقہ(یعنی چوری)، رشوت، رِبا (یعنی سود) سے توبہ کی توصرف آئندہ کے لئے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرورہے کہ جو نماز روزے ناغہ کئے ان کی قضا کرے ،جو مال جس جس سے چھینا ، چُرایا، رشوت، سود میں لیا انھیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کوواپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے توا تنا مال تَصَدُّق کردے اور دل میں نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تَصَدُّق پرراضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انھیں پھیردوں گا۔( فتاویٰ رضویہ، کتاب الحظروالاباحۃ، اعتقادیات وسیر، ۲۱/۱۲۱-۱۲۲)سود میں لئے گئے مال کے بارے میں یہ بھی اجازت ہوتی ہے کہ جس سے لیا ہے اسے دینے کی بجائے ابتداء میں ہی صدقہ کردے یعنی سود دینے والے کو لوٹانا ہی ضروری نہیں ہوتا۔(1)
{وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ: اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔} اگرہم عمل کرتے وقت یہ سوچ لیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ظاہری اور پوشیدہ ہرعمل کو جانتاہے اور وہ ہمارے تمام کاموں کو دیکھ رہا ہے تو امید ہے کہ کبھی گناہ کرنے کی ہمت نہ کریں۔ اسی سے متعلق ایک اور مقام پراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
’’اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۴۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم جو چاہو کرتے رہو، بیشک اللہتمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
1۔۔۔۔ توبہ سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’توبہ کی روایات وحکایات‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔