Brailvi Books

صراط الجنان جلد نہم
51 - 764
اور تنگی میں  اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں  ہیں  ۔ اسی سورت میں  ایک اور مقام پر اس کی ایک حکمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ‘‘(شوری:۲۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر اللہ اپنے سب بندوں  کیلئے رزق وسیع کردیتا تو ضرور وہ زمین میں  فساد پھیلاتے لیکن اللہ اندازہ سے جتنا چاہتا ہے اتارتا ہے ، بیشک وہ اپنے بندوں  سے خبردار (ہے، انہیں ) دیکھ رہاہے۔
	 اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بعض مؤمن بندے ایسے ہیں  کہ مالداری اُن کے ایمان کی قوت کا باعث ہے اگر میں  انہیں  فقیر محتاج کردوں  تو اُن کے عقیدے فاسد ہوجائیں  اور بعض بندے ایسے ہیں  کہ تنگی اور محتاجی ان کے ایمان کی قوت کا باعث ہے، اگر میں  انہیں  غنی مالدار کردوں  تو اُن کے عقیدے خراب ہوجائیں ۔( تاریخ بغداد، حرف الالف من آباء الابراہیمین، ۳۰۴۴-ابراہیم بن احمد بن الحسن۔۔۔ الخ، ۶/۱۴-۱۵)
	لہٰذا جسے رزق میں  تنگی کا سامنا ہے وہ یہ نہ سوچے کہ فلاں  شخص کو اتنا مال ملا ہے،فلاں  کو اتنی دولت عطا ہوئی ہے جبکہ میں  رزق کے معاملے میں  تنگیوں  کا سامنا کر رہا ہوں  بلکہ اسے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ رزق تھوڑا ملنے میں  میری ہی بھلائی ہو گی کیونکہ جس چیز میں  میری بھلائی ہے اسے میرا رب عَزَّوَجَلَّ بہتر جانتا ہے اور چونکہ رزق دینے والا بھی وہی ہے ا س لئے اس کی بارگاہ سے مجھے دوسروں  کے مقابلے میں  کم رزق ملنے میں  یقینا میری دنیا اور آخرت کا بھلا ہو گا اور اسی میں  میرے ایمان کی قیمتی ترین دولت کی حفاظت کا سامان ہو گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دولت ملنے کے بعد میرا دل بدل جائے اور میں  اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں  میں  مبتلا ہو کر اپنے ایمان کی دولت ضائع کر بیٹھوں  اور قیامت کے دن جہنم کے دردناک عذاب میں  ہمیشہ کے لئے مبتلا ہو جاؤں ۔ ایسا کرنے سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ پریشان دماغ کو راحت اور بے چین دل کو سکون نصیب ہو گا۔
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖۚ-وَ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ