ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے بارے میں مروی ہے کہ آپ عرفات کے مقام میں ٹھہرے ہوئے تھے، جب سورج غروب ہونے لگا تو آپ نے ا س کی طرف دیکھا کہ وہ ڈھال کی مانند ہے، یہ دیکھ کر آپ بہت شدید روئے اور ’’اَللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ‘‘ سے لے کر ’’اَلْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ‘‘ تک آیات تلاوت فرمائیں ۔ آپ کے غلام نے عرض کی’’اے ابو عبد الرحمن!میں آپ کے ساتھ کئی مرتبہ کھڑا ہو اہوں لیکن کبھی آپ نے اس طرح نہیں کیا (آج آپ اتنا کیوں رو رہے ہیں )آپ نے فرمایا’’مجھے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یاد آگئے ،وہ اسی جگہ کھڑے تھے اور ارشاد فرمایا’’اے لوگو! تمہاری اس دنیا میں سے جو گزر چکا ہے ا س کے مقابلے میں جو باقی ہے وہ اس طرح ہے کہ جو وقت آج کے دن گزر چکا ہے اور جو باقی ہے۔( مستدرک،کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ حم عسق، اسباب نزول ہاروت وماروت۔۔۔ الخ، ۳/۲۳۳، الحدیث: ۳۷۰۸)
اورحضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا (کے جانے)اور آخرت(کے آنے) کی مثال اس کپڑے کی طرح ہے جو شروع سے آخر تک پھٹ گیا ہو اور آخر میں ایک دھاگے سے لٹک کر رہ گیا ہو ،عنقریب وہ دھاگہ بھی ٹوٹ جائے گا۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر تابعی التابعین، الفضیل بن عیاض، ۸/۱۳۸، الحدیث: ۱۱۶۳۰)
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے (ابتداء سے لے کر انتہاء تک) پوری دنیا کو تھوڑا بنایا اور اب اس میں سے جو باقی بچا ہے وہ تھوڑے سے بھی تھوڑا ہے اور باقی رہ جانے والے کی مثال اس حوض کی طرح ہے جس کا صاف پانی پی لیا گیا ہو اور(اس کی تہ میں موجود) گدلاپانی باقی رہ گیا ہو۔( مستدرک، کتاب الرقاق، تمثیل آخر للدنیا، ۵/۴۵۶، الحدیث: ۷۹۷۴)
علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کی شرح میں فرماتے ہیں :یعنی دنیا کی مثال ا س بڑے تالاب کی طرح ہے جو پانی سے بھرا ہو ا ہو اور اسے انسانوں اور جانوروں کے پانی پینے کے لئے بنایا گیا ہو،پھرپانی پینے والوں کی کثرت کی وجہ سے ا س کا پانی کم ہونا شروع ہو جائے یہاں تک کہ ا س کی تہ میں کیچڑ ہی باقی بچے جس میں جانور لوٹ پوٹ ہوتے ہوں ،تو عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا پر مُطمَئن نہ ہو اور نہ ہی یہ بات واضح ہو جانے کے بعد دنیا سے دھوکہ