(1)… فرشتوں کی شفاعت برحق ہے ۔
(2)… فرشتوں کو اس شفاعت کا اِذن مل چکا ہے اور آج بھی وہ مسلمانوں کی شفاعت کررہے ہیں ، جب فرشتے شفاعت کر رہے ہیں تو پھر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت میں کیسے تَاَمُّل ہوسکتاہے ۔
(3)… جب اللہ تعالیٰ کسی کو کچھ دینا چاہتا ہے تو مقبول بندوں کی دعا سے بھی دیتا ہے ، جیساکہ اس آیت سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بخشنا چاہتا ہے تو فرشتوں سے کہہ دیا ہے کہ ان کے لئے بخشش مانگا کرو۔
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ اللّٰهُ حَفِیْظٌ عَلَیْهِمْ ﳲ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ(۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور جنہوں نے اللہ کے سوا اور والی بنارکھے ہیں وہ اللہ کی نگاہ میں ہیں اور تم اُن کے ذمہ دار نہیں ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جنہوں نے اللہ کے سوا (بتوں کو)مددگار بنارکھا ہے اللہ ان پرنگران ہے اور تم ان کے کاموں پر ذمہ دار نہیں ۔
{وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ: اور جنہوں نے اللہ کے سوا مددگار بنارکھے ہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہو ئے ارشاد فرماتا ہے کہ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی قوم کے وہ مشرکین جو اللہ تعالیٰ کی بجائے بتوں کو پوجتے اور انہیں اپنامعبود سمجھتے ہیں ،اُن کے تمام اَعمال اور اَفعال اللہ تعالیٰ کے سامنے ہیں ،وہ قیامت کے دن انہیں ان کابدلہ ضرور دے گا، اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی ذمہ داری بس انہیں ڈرسنانا ہے، لہٰذا آپ سے اُن کے اَفعال کا مُواخذہ نہ ہوگا، آپ انہیں رسالت کی تبلیغ کریں ان سے حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔( تفسیرطبری، الشوری، تحت الآیۃ: ۶، ۱۱/۱۲۹، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۶، ۴/۹۱، ملتقطاً)
وَ كَذٰلِكَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ