{حٰمٓۚ(۱) عٓسٓقٓ} ان حروف کا تعلق حروفِ مُقَطَّعات سے ہے،ان کا معنی اور انہیں جدا جدا بیان کرنے کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۹/۵۷۵، ملخصاً)
{كَذٰلِكَ: یونہی۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف ہم نے غیبی خبریں وحی فرمائیں اسی طرح آپ کی طرف بھی عزت و حکمت والا اللہ تعالیٰ غیبی خبریں وحی فرماتا ہے ۔ (خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۳، ۴/۹۰، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۰۸۱، ملتقطاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد اب کوئی نبی نہیں بن سکتا:
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہاں اُس کا اِ س طرح ذکر ہوتا کہ یوں ہی ہم آئندہ نبیوں کی طرف بھی وحی کریں گے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے کے نبی ہیں لہٰذا اب ان کا تشریف لانا اس آیت کے خلاف نہیں ۔
لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ(۴)
ترجمۂکنزالایمان: اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور وہی بلندی و عظمت والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور وہی بلندی والا، عظمت والا ہے۔
{لَهٗ: اسی کا ہے۔} یعنی زمین و آسمان میں موجود تمام چیزوں کا خالق ،مالک اور انہیں جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کی شان بھی بلند ہے اور اس کی مِلکِیَّت ، قدرت اور حکمت بھی عظیم ہے۔ یاد رہے کہ حقیقی عظمت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے اپنے محبوب بندوں کو جو عظمت حاصل ہے یہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے۔( روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۴، ۸/۲۸۷)