پھر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔( بخاری، کتاب الایمان، باب سؤال جبریل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الایمان۔۔۔ الخ، ۱/۳۱، الحدیث: ۵۰)
اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: ’’وَ الْعَصْرِۙ(۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘‘(عصر:۱۔۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: زمانے کی قسم۔ بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے۔ مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔
تو پورے قرآنِ پاک میں مغفرت کا وعدہ ایمان اور نیک اعمال سے مُنسَلِک ہے صرف ایمان کے ساتھ نہیں ۔ تو وہ لوگ بھی دھوکے میں ہیں جو دُنْیَوی زندگی پر مُطمَئن اور خوش ہیں ، اس کی لذّات میں ڈوبے ہوئے اور اس سے محبت کرنے والے ہیں اورصرف دُنْیَوی لذّات کے فوت ہونے کے خوف سے موت کو نا پسند کرتے ہیں ۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳/۴۶۸-۴۶۹)
اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور کثرت سے نیک اعمال کر کے اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔