واقع ہونے میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے۔ انہیں خبردار ہو جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم اورقدرت سے ہر چیز کوگھیرے ہوئے ہے،کوئی چیز ا س کے علم کے اِحاطے سے باہر نہیں اور اس کی معلومات کی کوئی انتہاء نہیں تو وہ انہیں ان کے کفر اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملنے کے متعلق شک کرنے پر سزا دے گا۔(جلالین، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۴۰۱، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۱۰۸۰، ابن کثیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ۷/۱۷۱، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴/۹۰، ملتقطاً)
شیطان آخرت کے بارے میں شک ڈال کر دھوکہ دیتا ہے :
اس آیت میں بیان ہوا کہ کفار آخرت کے بارے شک میں مبتلا ہیں البتہ کچھ مسلمانوں کی عملی حالت سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی آخرت کے بارے میں دھوکے کا شکار ہیں ، جیسا کہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شیطان آخرت کے بارے میں شک ڈال کر اس کے ذریعے دھوکہ دیتاہے اور اس کا علاج یا تو تقلیدی یقین ہے یا باطنی بصیرت و مشاہدہ ہے اور وہ لوگ جو اپنے عقائد اور زبان سے مومن ہیں ، جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ضائع کر دیتے ہیں ،نیک اعمال کو چھوڑدیتے ہیں اور خواہشات اور گناہوں کا لباس پہن لیتے ہیں تو اس دھوکے میں وہ بھی کفار کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی البتہ مومن کا معاملہ ذرا ہلکا اور آسان ہے کیونکہ اس کا ایمان اسے دائمی عذاب سے محفوظ رکھتا ہے،لہٰذا وہ جہنم سے نکل جائیں گے اگر چہ کچھ وقت کے بعد ہو، لیکن دھوکے میں یہ بھی ہیں ، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ آخرت دنیا سے بہتر ہے لیکن اس کے باوجود وہ دنیا کی طرف مائل ہوئے اور اس کو ترجیح دی اور کامیابی کے لئے محض ایمان کافی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى‘‘(طٰہٰ:۸۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک میں اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘(اعراف:۵۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔