آفاقی نشانیوں کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد سورج ، چاند، ستارے، نباتات اور حیوان ہیں کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت پر دلالت کرنے والے ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ان نشانیوں سے مراد گزری ہوئی اُمتوں کی اُجڑی ہوئی بستیاں ہیں جن سے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں کا حال معلوم ہوتا ہے ،اوربعض مفسرین نے فرمایا کہ ان نشانیوں سے مشرق و مغرب کی وہ فتوحات مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے نیاز مندوں کو عنقریب عطا فرمانے والاہے۔
کفار کی ذات میں نشانیوں سے مرادیہ ہے کہ ان کی ہستیوں میں اللہ تعالیٰ کی صَنعت اور حکمت کے لاکھوں لطائف اور بے شمار عجائبات موجود ہیں جن سے ظاہر ہے کہ ان چیزوں پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں ،یا اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بدر میں کفار کو مغلوب کیا اوران پر قہر نازل کرکے خود ان کے اپنے اَحوال میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرادیا،یا اس سے مراد یہ ہے کہ مکہ مکرمہ فتح فرما کر اُن میں اپنی نشانیاں ظاہر کر دیں گے۔( روح البیان ، حم السجدۃ ، تحت الآیۃ : ۵۳ ، ۸/۲۸۱، جلالین، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۴۰۱، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۳، ۴/۸۹، ملتقطاً)
اَلَاۤ اِنَّهُمْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآءِ رَبِّهِمْؕ-اَلَاۤ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطٌ۠(۵۴)
ترجمۂکنزالایمان: سنو انھیں ضرور اپنے رب سے ملنے میں شک ہے سنو وہ ہر چیز کو محیط ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: سن لو! بیشک یہ کافر اپنے رب سے ملنے کے متعلق شک میں ہیں ۔ خبردار!وہ ہر چیز کوگھیرے ہوئے ہے۔
{اَلَاۤ اِنَّهُمْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآءِ رَبِّهِمْ: سن لو! بیشک یہ کافر اپنے رب سے ملنے کے متعلق شک میں ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ سن لو! بیشک یہ کافر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملنے کے بارے شک میں ہیں کیونکہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اورقیامت کے قائل نہیں ہیں ،اسی لئے وہ اس میں غور وفکر کرتے ہیں ،نہ اس کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہی اس سے ڈرتے ہیں بلکہ وہ ان کے نزدیک ایک باطل چیز ہے جس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں حالانکہ قیامت ضرور واقع ہوگی اور اس کے