کسی قسم کی پریشانی ،بیماری یا ناداری وغیرہ کی تکلیف پیش آتی ہے تو اس وقت وہ خوب لمبی چوڑی دعائیں کرتا ، روتا اور گِڑگڑاتا ہے اور لگاتار دعائیں مانگے جاتا ہے۔( مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۱۰۷۹، ملخصاً)
راحت میں اللہ تعالیٰ کو بھول جانا اور صرف مصیبت میں دعا کرنا کفار کا طریقہ ہے:
کافر کی اس طرح کی حالت کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖۚ-وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَـٴُـوْسًا‘‘(بنی اسرائیل:۸۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ہم انسان پر احسان کرتے ہیں تو وہ منہ پھیرلیتا ہے اور اپنی طرف سے دور ہٹ جاتا ہے اور جب اسے برائی پہنچتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ راحت کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کو بھول جانا اور صرف مصیبت کے اَیّام میں دعا کرنا کفار کا طریقہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے کیونکہ یہاں دعا مانگنے پر عتاب نہیں کیا گیا بلکہ راحت میں دعا نہ مانگنے پر عتاب کیا گیاہے۔نیز یہ عمل مَصائب و آلام کے وقت مانگی جانے والی دعاؤں کے قبول نہ ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جسے یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں اور مصیبتوں میں ا س کی دعا قبول فرمائے تو اسے چاہئے کہ وہ صحت اور کشادگی کی حالت میں کثرت سے دعا کیا کرے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء انّ دعوۃ المسلم مستجابۃ، ۵/۲۴۸، الحدیث: ۳۳۹۳)
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ راحت میں ،آسانی میں ،تنگی میں ،مشکلات میں اور مَصائب و آلام کے وقت الغرض ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کریں اور اس سلسلے میں کافروں کی رَوِش پر چلنے سے بچیں ۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
مصیبتوں کا سامنا تسلیم و رضا اور صبر و اِستقلال سے کریں :
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ بندے پر نازل ہونے والی ہر بلا،مصیبت،نعمت،رحمت، تنگی اور آسانی