کا مزہ چکھائیں ۔} یہاں سے کافر انسان کا دوسرا حال بیان کیا جارہا ہے کہ اگر ہم اسے بیماری کے بعد صحت ، سختی کے بعد سلامتی اور تنگدستی کے بعد مال و دولت عطا فرما کر اپنی رحمت کا مزہ چکھائیں تو وہ کہنے لگتا ہے کہ’’ یہ تو خالص میرا حق ہے جو مجھے ملا ہے اور میں اپنے عمل کی وجہ سے اس کا مستحق ہوا ہوں اور میرے گمان میں قیامت قائم نہ ہوگی اور اگر بالفرض مسلمانوں کے کہنے کے مطابق قیامت قائم ہوئی اور میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹایا بھی گیا تو ضرور میرے لیے اس کے پاس بھی دنیا کی طرح عیش و راحت اورعزت و کرامت ہے۔ فرمایا گیا کہ اس کا یہ گمان فاسد ہے ،ضرور ہم ان کے قبیح اعمال ،ان اعمال کے نتائج اور جس عذاب کے وہ مستحق ہیں اس سے انہیں آگاہ کردیں گے اور ضرور ضرورانہیں انتہائی سخت عذاب چکھائیں گے۔ (مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۱۰۷۹، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۰، ۴/۸۹، ملتقطاً)
وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖۚ-وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِیْضٍ(۵۱)
ترجمۂکنزالایمان: اورجب ہم آدمی پر احسان کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا ہے اور اپنی طرف دُور ہٹ جاتا ہے اور جب اُسے تکلیف پہنچتی ہے تو چوڑی دعا والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اورجب ہم آدمی پر احسان کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا ہے اور اپنی طرف دور ہٹ جاتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو (لمبی)چوڑی دعا(مانگنے) والابن جاتا ہے۔
{وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ: اورجب ہم آدمی پر احسان کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا ہے۔} اس سے پہلی آیت میں کفار کے قبیح اَقوال بیان کئے گئے اور اس آیت میں ان کے قبیح اَفعال بیان کئے جا رہے ہیں ۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب ہم کافر انسان پر احسان کرتے ہیں تو وہ اس احسان کاشکر ادا کرنے سے منہ پھیر لیتا ہے اور اس نعمت پر اِترانے لگتاہے اور نعمت دینے والے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کو بھول جاتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی یاد سے تکبر کرتا ہے اور جب اسے