حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو گناہگار آدمی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھتا ہے وہ اس بندے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب ہوتا ہے جو بڑا عبادت گزار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہونے کے باوجود یہ امید نہیں رکھتا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت ملے گی۔( مسند الفردوس، باب العین، فصل من ذوات الالف واللام، ۳/۱۵۹، الحدیث: ۴۴۲۷)
مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھنی چاہیے ، یہ نہیں کہ آدمی عمل کرکے یا بغیر عمل کے بے خوف ہوجائے کہ یہ جرأت ہے۔
وَ لَىٕنْ اَذَقْنٰهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَیَقُوْلَنَّ هٰذَا لِیْۙ-وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآىٕمَةًۙ-وَّ لَىٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّیْۤ اِنَّ لِیْ عِنْدَهٗ لَلْحُسْنٰىۚ-فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا٘-وَ لَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ(۵۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور اگر ہم اُسے کچھ اپنی رحمت کا مزہ دیں اس تکلیف کے بعد جو اُسے پہنچی تھی تو کہے گا یہ تو میری ہے اور میرے گمان میں قیامت قائم نہ ہوگی اور اگر میں رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو ضرور میرے لیے اس کے پاس بھی خوبی ہی ہے تو ضرور ہم بتادیں گے کافروں کو جو اُنھوں نے کیا اور ضرور انھیں گاڑھا عذاب چکھائیں گے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اوراگر ہم اسے اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی تھی اپنی رحمت کا مزہ چکھائیں تو ضرورکہے گا: یہ تو میرا حق ہے اور میرے گمان میں قیامت قائم نہ ہوگی اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو ضرور میرے لیے اس کے پاس بھی بھلائی ہی ہے تو ضرور ہم کافروں کو ان کے اعمال کی خبر دیں گے اور ضرور ضرورانہیں سخت عذاب چکھائیں گے۔
{وَ لَىٕنْ اَذَقْنٰهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ: اور اگر ہم اسے اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی تھی اپنی رحمت