Brailvi Books

صدائے مدینہ
8 - 30
اَفْسَوس! صَد اَفْسَوس! ہم تو اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی یاد سے غافِل ہو کر مَحْض دُنْیَاوِی لذّتوں اور نفسانی خواہشات کے حُصُول میں مگن ہیں، مگر ہمارے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحْمَت ہے کہ ہماری بَـخْشِشْ کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ جیسا کہ کسی نے کیا خوب فرمایا ہے: 
رَحْمَتِ حَقْ ”بَہَا“ نَہ مے جَوْیَدْ	رَحْمَتِ حَقْ ”بَہَانَہ“ مے جَوْیَد
یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحْمَت قیمت طَلَب نہیں کرتی بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحْمَت تو بہانہ ڈھونڈتی ہے۔
حضرت سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مَرْوِی ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب،کُل اُمّت کے طبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ مَغْفِرَت نِشان ہے: جب رات کا ایک تِہائی حِصّہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مُطابِق) نُزُول فرماتا ہے اور وہ اِرشَاد فرماتا ہے: ہے کوئی حاجَت مند کہ میں اسے عَطا کروں؟ ہے کوئی دُعا کرنے والا کہ میں اسکی دُعا قبول کروں؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قُبُول کروں؟ ہے کوئی بَـخْشِشْ چاہنے والا کہ میں اسے مُعاف کروں؟ یہاں تک کہ فَجْر کا وَقْت ہو جاتا ہے۔1 مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان مِرْاٰۃُ الْمَنَاجِیح میں ایک مَقام پر فرماتے ہیں: آخری تِہائی رات کے تین۳ حصّے کرو، اس کے درمیانی حصّے میں تَـھَجُّد پڑھو گویا رات کے چھٹے حصّے میں اِسی وَقْت سَحَرِی کھانا، دُعائیں مانگنا بلکہ اِسْتِغْفار کرنا اَفْضَل ہے، کیونکہ اس وَقْت رَحْمَتِ الٰہی دنیا کی طرف زیادہ مُتَوجّہ
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
  ……… اَلسُّنة لابنِ ابی عاصم، باب ذکر نزول ربنا...الخ، ص۳۴۹، حدیث:۵۱۰