کا اِسراف (یعنی اس کو ضائع کرنا)حرام ہے (1)لىکن افسوس ایسا کرتے ہوئے بالکل ڈر نہیں لگتا۔ پانى پئىں گے تو آدھا بچا کر پھىنک دىں گے حالانکہ ایسا کرنا حرام ہے لہٰذا بچا ہوا پانی پھینک دینے کے بجائے رکھ لیں اور بعد میں پی لیں یا کسی دوسرے مسلمان کو پِلا دیں۔ اگر جوٹھا ہے تو کیا ہوا؟ناپاک تو نہیں ہو گیا بلکہ دوسرا مسلمان پیے گا تو اس کے لیے شِفا کا سبب بنے گا جیساکہ منقول ہے : سُؤْرُ الْمُؤْمِنِ شِفَاءٌ یعنی مؤمن کے جُوٹھے میں شِفا ہے ۔ (2)لہٰذا جُوٹھا پانى پھىنکنے کے بجائے کسی نہ کسی اِستعمال میں لے لینا چاہیے ۔
امیرِ اَہلسنَّت کاہر قسم کے اِسراف سے بچنے کا ذہن
جب مىں پانى پىتا ہوں تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ایک ایک قطرہ ضائع ہونے سے بچانے کا اِہتمام کرتا ہوں چنانچہ پانی پی چکنے کے بعد پىالے کى دىواروں سے پىندے مىں دو تىن قطرے جمع ہو جاتے ہیں تو انہیں بھى پى لىتا
________________________________
1 - اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُرَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں : صِرف دو صورتوں میں اِسراف ناجائز و گناہ ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی گناہ میں صَرف و اِستعمال کریں، دوسرے بیکار محض مال ضائع کریں۔ وُضو و غسل میں تین بار سے زائد پانی ڈالنا جب کہ غَرَضِ صحیح(یعنی جائز مقصد) سے ہو ہر گز اِسراف نہیں کہ جائز غَرَض میں خَرچ کرنانہ خود مَعصِیَت(یعنی نافرمانی) ہے نہ بیکار اِضاعت(یعنی ضائِع کرنا)۔ (فتاویٰ رضویہ، ۱ / ۹۴۰ تا ۹۴۲، جز : ب)
2 - الفتاوی الفقھیة الكبری لابن حجرالهيتمی، ۴ / ۱۱۷ دار الکتب العلمیة بیروت