جوٹھا پانی پھینک دینا کیسا؟
سُوال : بعض لوگ پانی پینے کے بعد بچا ہوا پانی پھینک دیتے ہیں ، ایسا کرنا کیسا ہے ؟(1)
جواب : بچا ہوا پانی پھینک دینا اِسراف اور گناہ ہے لیکن اکثریت بڑی بے دَردی کے ساتھ یہ پانی پھینک دیتی ہے ۔ (2) لگتا ہے کہ ہر نعمت میں اِسراف کرنا ىہ انٹرنىشنل پَرابلم بن گیا ہے ۔ اِسراف سے بچنے کا لاکھوں ىا کروڑوں مىں کسی اىک کا ذہن ہو تو ہو ورنہ گھروں مىں پانی ضائع کرنے کا عام مَسئلہ ہے حالانکہ پانى
________________________________
1 - یہ سُوال شعبہ فیضانِ مَدَنی مذاکرہ کی طرف سے قائم کیا گیا ہے جبکہ جواب امیرِ اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا عطا فرمودہ ہی ہے ۔ (شعبہ فیضانِ مَدَنی مذاکرہ)
2 - ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے کہ ”ایک صاحِب نے پانی پی کر بچا ہوا پھینک دیا اس پر(اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے )اِرشاد فرمایا : (بچا ہوا پانی)پھینکنا نہ چاہیے ۔ کسی بَرتن میں ڈال دیتے ، اِس وقت تو پانی اِفْرَاط (یعنی کثرت)سے ہے ، اِس ایک گھونٹ پانی کی قدر نہیں۔ جنگل میں جہاں پانی نہ ہو وہاں اِس کی قدر معلوم ہو سکتی ہے کہ اگرایک گھونٹ پانی مِل جائے تو ایک اِنسان کی جان بچ جائے ۔ حضرت خلیفہ ہارون رَشید رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ عُلَما دوست تھے ۔ دَربار میں عُلَما کامجمع ہر وقت لگا رہتا تھا۔ ایک مَرتبہ پانی پینے کے واسطے منگایا، مُنہ تک لے گئے تھے ، پینا چاہتے تھے کہ ایک عالِم صاحب نے فرمایا : اَمِیْرُ الْمُؤمِنِیْن!ذرا ٹھہریئے ! میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ فوراً خلیفہ نے ہاتھ روک لیا۔ اُنہوں نے فرمایا : اگر آپ جنگل میں ہوں اور پانی مُیَسَّر نہ ہو اور پیاس کی شِدَّت ہو تواِتنا پانی کس قَدَر قیمت دے کر خریدیں گے ؟ فرمایا : وَاﷲ! آدھی سَلطنت دے کر۔ فرمایا : بس پی لیجئے !جب خلیفہ نے پی لیا، انہوں نے فرمایا : اب اگر یہ پانی نکلنا چاہے اور نہ نکل سکے تو کس قَدَر قیمت دے کر اِس کا نکلنامَول (یعنی خرید )لیں گے ؟کہا : وَاﷲ! پوری سَلطنت دے کر۔ اِرشاد فرمایا : بس آپ کی سَلطنت کی یہ حقیقت ہے کہ ایک مَرتبہ ایک چُلُّو پانی پر آدھی بِک جائے اور دوسری بار پوری اِس پر جتنا چاہے تکبر کر لیجئے ! (تاریخ الْخُلَفَا، ھارون الرشید، اخبارہ، ص۲۳۵ملخصاً)(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص۳۷۶ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)