پتا نہیں بچوں کو کیوں اِغوا کیا جا رہا ہے ۔ مجھے صَوتی پیغام کے ذَریعے ایک اسلامی بھائی نے بتایا کہ حال ہی میں زَم زَم نگر ( حیدر آباد) میں ایک چھ سالہ بچی کو اِغوا کیا گیا اور پھر دوسرے دِن اُس کی لاش بوری میں بند ٹکڑوں کی صورت میں ایک کَچْرا کونڈی کے ڈھیر سے ملی ۔ بے چاری چھ سالہ بچی کو اِس طرح بے دَردی کے ساتھ شہید کر کے کچرا کونڈی پر ڈال دینا سمجھ سے باہر ہے ۔ عموماً دُشمنی اور خاندانی مَسائل کی بِنا پر لوگ اِس طرح کی وارداتیں کرتے ہیں ۔ اس واقعے میں بے چاری بچی کے ماں باپ کے لیے بڑے صَدمے کی بات ہے اللہ پاک انہیں صَبر عطا فرمائے ۔ اِسی طرح تاوان کی رَقمیں وُصُول کرنے کے لیے جب کسی کے بچے کو اُٹھایا جاتا ہو گا تو اس کے پورے خاندان ، کنبے اور قبیلے کی نیند اُڑ جاتی ہو گی!ظاہر ہے بچوں کے اِغوا کی وارداتیں کرنے والے مَدَنی چینل نہیں دیکھتے ہوں گے کیونکہ اگر دیکھتے تو پھر اس طرح کے کام نہ کرتے ۔ بچے اِغوا کر کے لوگوں کو پریشان کرنے والوں کو اللہ پاک ہدایت نصیب فرمائے اور کاش! انہیں یہ سوچنے کے توفیق مِل جائے کہ بچے اِغوا کرنا گناہ کا کام ہے اور انہیں عنقریب مَرنا ہے ۔
بچوں کو تنہا نہ چھوڑا جائے
بچوں کی حِفاظت کے لیے ایک اِحتیاطی تدبیر یہ ہے کہ بچوں کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور آنے جانے میں ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی بڑا ضَرور موجود ہو کیونکہ