لىے دُعا کردىں تاکہ نمازی ہوجائے یا اسے سمجھا ئیں کہ یہ شرارتیں چھوڑ دے تو ایسا کرنا کىسا ؟
جواب : بچوں کو نصیحت کرنے کا یہ انداز دُرُست نہیں اس لیے کہ اگر بچے کے سامنے کسی کو ایسا بولیں گے تو وہ شرمندہ ہوگا اور اپنے باپ کے متعلق اس کے دِل میں یہ بات آئے گی کہ اس نے مجھے فُلاں کے سامنے بے عزت کر دیا ۔ ممکن ہے کہ اب اس شخصیت کی نصیحت بھی اس پر اَثر نہ کرے ۔ میرے پاس بھی بعض لوگ اپنے بچوں کو لے آتے ہیں کہ اسے نماز پڑھنے کا بولىں... شرارتى بہت ہے ، اسے سمجھا دیں کہ والدین کو تنگ نہ کیا کرے ...تو ایسے موقع پر میں پہلے والد کو الگ سے سمجھاتا ہوں کہ ىہ باتیں اس کے سامنے نہیں کرنی تھیں ۔ مجھے لکھ کر یا کان میں کہہ دیتے ۔ سامنے کہنے سے بچے کا یہ ذہن بنتا ہے کہ باپ نے میری بے عزتی کروا دی ۔ اب نصیحت کا اس پر خاطرخواہ اَثر نہیں ہو گا ۔ چونکہ اِصلاح ایک پھونک مارنے سے نہیں ہو جاتی اس کے لیے حکمت وتَدَبُّر سے کام لینا پڑتا ہے لہٰذا حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ بچے کو یہ اِحساس نہ ہونے دیا جائے کہ میری بے عزتی کروا دی ورنہ اس کا ذہن باغی ہو جائے گا ۔ یوں ہی بار بار روک ٹوک کرنا بھی بچے کو باغی بنا دیتا ہے ۔ موجودہ دور میں اولاد کے باغی ہونے کے پیچھے خود والدین کا اپنا بھی کِردار ہوتا ہے ۔ والدین بات بات پر جھاڑتے اور مارتے ہىں جس کے سبب بچے ضِدى اور باغی ہوجاتے ہیں، پھر نہ مار اَثر کرتی ہے