کئی اَحکامِ شَرع کی بنیاد چاند دیکھنے پر ہے
سُوال : جس طرح نماز کے اوقات مىں سائنس ہمارى مدد کرتى ہے اور ہم کہىں بھى ہوں وہاں کے نماز کے اوقات جان سکتے ہىں ، کىا اِسی طرح ہم سائنس کى مدد سے پورے سال کے چاند کا حِساب بھی لگا سکتے ہیں؟
جواب : نماز کے اوقات جان لینے کو سائنس دانوں کے کھاتے مىں نہ ڈالا جائے ، اس کا تعلق علمِ توقیت سے ہے ، جس پر بڑے بڑے عُلَمائے کِرام کَثَّرَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام نے کام کىا ہے ، لہٰذا نماز کے اوقات کى ترکىب سائنس سے نہىں بلکہ عُلَمائے کِرام کَثَّرَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کى راہ نُمائى سے ہو گى ۔ عِلمِ توقىت اىک عِلم ہے جو مفتى کے لىے ضَرورى عُلُوم مىں سے ہے ۔ رہی بات چاند کا حِساب لگانے کی تو اِس کا تعلق نہ تو سائنسی تحقیق سے ہے اور نہ ہی عِلمِ توقیت سے کہ پورے سال کا ایک ساتھ ہی حِساب کر دیا جائے بلکہ اس کا تعلق رُؤیتِ ہِلال ( یعنی چاند دیکھنے ) سے ہے ۔ بہت سے اَحکامِ شَرع کی بنیاد چاند دیکھنے پر ہے مثلاً رَمَضانُ المبارک کے روزے ، مَناسِکِ حج ، عیدُالفطر اور عیدُ الاضحیٰ وغیرہ کا حِساب چاند دیکھ کر ہی کیا جاتا ہے ۔ بعض توقىت دان اس معاملے مىں پیشن گوئی کرتے ہىں کہ فُلاں تارىخ کو چاند ہوگا تو ان کی اس پیشن گوئی کا اِعتبار نہىں بلکہ چاند نظر آنے کا اِعتبار ہے ، جب شرعی ثبوت سے چاندکا نظر آنا ثابت ہوتا تو مہینا شروع ہونا مانا جائے گا ۔