پہلے کے دور میں خانہ کعبہ کا دَروازہ عوام کے لیے بھی کھولا جاتا تھا ، یقینا ًاس میں داخلہ مِل جانا بڑی سَعادت کی بات تھی لیکن فُقہائے کِرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام نے وہاں بھی یہ قُیُودات لگائی کہ اگر بآسانی داخِلہ مِل جائے تو بہتر ورنہ دھکم پیل کر کے نہ داخِل ہو۔ چنانچہ صَدرُالشَّریعہ ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : کعبۂ مُعَظَّمَہ کی داخِلی (داخِل ہونا) کمال سعادت ہے اگر جائز طور پر نصیب ہو۔محرم میں عام داخِلی ہوتی ہے مگر سخت کشمکش رہتی ہے ۔ کمزورمَرد کا تو کام ہی نہیں ، نہ عورتوں کو ایسے ہجوم میں جرأت کی اِجازت ، زبردست (طاقتور) مَرد اگر آپ اِیذا سے بچ بھی گیا تو اَوروں کو دھکے دیکر اِیذا دے گا اور یہ جائز نہیں ، نہ اس طرح کی حاضِری میں کچھ ذوق ملے ۔ (1)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ساری مسجدِ نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِھَاالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام ہی نزولِ رَحمت کا مقام ہے لہٰذا رَوْضَۃُ الْجَنَّۃ میں بآسانی جگہ نہ ملے تو آپ کہیں بھی عبادت کرلیجئے ۔اگر خاص رَوْضَۃُ الْجَنَّۃ کی ہی بَرکتیں پانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایسے اوقات یا مہینوں کا اِنتخاب کیجئے جس میں وہا ں زیادہ رَش نہ ہو مثلاً حج اور رَمضانُ المبارک کے عِلاوہ وہاں زیادہ رَش نہیں ہوتا۔ اِنتظامیہ کو بھی چاہیے کہ اِس طرح خاص وقت میں دروازہ کھول کر مسجد کی بے ادبی کے
________________________________
1 - 1بہارِ شریعت ، ۱ / ۱۱۵۰ ، حصہ : ۶