کتاب ” رَفیقُ الحرمین “ میں ہر زائرِ مدینہ سے بارگاہِ رسالت میں اپنا سلام پیش کرنے کی دَرخواست کی ہوئی ہے ، اگر کوئی اسے پڑھ کر میری طرف سے ایک بار یا بار بار بھی سلام پیش کر دیتا ہے تو اس میں حَرج نہیں بلکہ وہ اَجر وثواب کا مستحق ہوگا۔ اگر کوئی سَلام پیش نہیں کرتا جب بھی مُضایقہ نہیں کیونکہ فقط دَرخواست کرنے پر سَلام پہنچانا واجِب نہیں ہوتا ۔
حجاجِ کِرام سے سَلام و دُعا پہنچانے سے متعلق پوچھنا
سُوال : سَلام یا دُعا کے لیے کہنے والے واپسی پر زائرِ مدینہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارا سَلام پہنچایا تھا؟کعبہ پر پہلی نظر جب پڑی تو ہمارا نام لے کر دُعا کی تھی یا نہیں؟ تو ان کا اس طرح پوچھنا کیسا؟
جواب : سَلام یا دُعا کی دَرخواست کرنے میں تو حَرج نہیں لیکن واپسی پر پوچھنا کہ کیا ہمارے لیے دُعا کی تھی؟ہمارا سَلام پہنچایا تھا؟ تو اس سے بچنا چاہیے ۔ممکن ہے اس نے دُعا تو مانگی ہو اورسَلام بھی پہنچایا ہو لیکن اب اسے یاد نہ آرہا ہو نیز یہ بھی ممکن ہے کہ واقعی وہ وہاں بھول گیا ہوں۔اب اگر وہ سچ بولتا ہے کہ مجھے یاد نہیں رہا تو اسے اس قسم کے کڑوے جملے سُننے پڑ سکتے ہیں کہ ہاں بھائی ! ہم غریب بھلا کیسے یاد رہ سکتے ہیں ! ! ! ہمیں کون پوچھتا ہے ! ! ! وغیرہ وغیرہ۔تو ایسے جملوں سے بچنے کے لیے اکثر لوگ مُرَوَّت میں جھوٹ بول دیتے ہیں کہ ” بھلا آپ کو کیسے بھول سکتے ہیں؟آپ کے لیے تو نام لے کر دُعا کی تھی۔ “ ظاہر ہے