نشان مٹ گئے اب انکا نام تک لینے والا کوئی باقی نہیں رہا ، ان کے بدن خاک میں مل گئے اور ان کے اعمال ان کے گلے کا ہار ہیں۔‘‘(المنبھات علی الاستعداد ص۱۹)
اُونچے اونچے مکان تھے جن کے تنگ قبروں میں آج آن پڑے
آج وہ ہیں نہ ہیں مکاں باقی نام کو بھی نہیں ہے نشاں باقی
ہماری فُضُول سوچ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہوا لوں کی بھی کیاخو ب مَدَنی سوچ ہوتی ہے انہوں نے عالی شان مکانات دیکھ کر ان سے عبرت کا سامان کیا اور ایک ہم ہیں کہ اگر عمدہ مکانات، کوٹھیاں اور بنگلے دیکھ لیتے ہیں تو مزید غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں ،ا ن کو ٹھیوں کو رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں ، ان کی سجاوٹوں کا نظّارہ کرتے ہیں ، اس کی پائیداری پر تبصرے کرتے ہیں ، ان کے بھاؤ کا اندازہ لگاتے ہیں اور نہ جانے کتنی فضولیات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اے کاش! ہمیں بھی مَدَنی سوچ نصیب ہوجاتی۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جس دارِ ناپائید ار کے حصول کی خاطر آج ہم ذلیل و خوا ر ہو رہے ہیں اس کو نہ ثبات ہے نہ قرار، اس کی ظاہری رنگینی و شادابی پر فریفتہ ہونے والو! یاد رکھو! ؎
گرچہ ظاہر میں مثلِ گل ہے پر حقیقت میں خار ہے دنیا
ایک جھونکے میں ہے اِدھر سے اُدھر چار دن کی بہار ہے دنیا