منحوس بدمذہبوں کی بات سننی ہی نہیں ہے
مذکورہ حکایت سے ان لوگوں کو بھی درس حاصِل کرنا چاہے کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو کوئی بھی قراٰن وحدیث بیان کرے آنکھیں بند کر کے اُس سے سُن لینا چاہے اگر ایسا ہوتا تو مسلمانوں کے جلیلُ القَدر امام حضرت سیِّدُنا امام ابوبکر محمد ابنِ سِیرین عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللّٰہِ المُبین جیسے عظیم عالمِ دین نے اُن بدعقیدہ آدمیوں سے قراٰن وحدیث کوکیوں نہیں سنا! بس یوں سمجھو کہ انہوں نے نہ سُن کر گویا ہم جیسوں کو سمجھایا ہے کہ میں بھی نہیں سنتا تم بھی مت سنو!حالانکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ عربی دان اور جلیل القدر عالم و مُجتَہِدتھے، اگر وہ بدعقیدہ لوگ تاویل کرتے تو پکڑے بھی جاتے مگر ان منحوس بدمذہبوں سے سننا ہی نہیں ہے کہ شیطان کو بہکاتے دیر نہیں لگتی۔ اگر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سن لیتے تو دوسروں کے لئے دلیل ہو جاتی اور وہ سُن کر گمراہ ہوتے۔ اور ہاں آپ نے ان کو جو چلے جانے کا حکم فرمایا وہ کوئی بداَخلاقی نہیں تھی بلکہ ایسا کرنا عین حُسنِ اَخلاق ہے۔اللّٰہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دشمنوں کی خاطِر تواضُع نہیں کی جاسکتی ۔
جو ہیں دشمن رسول کے اُن کو
ہم نے دل سے نکال رکھا ہے
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد