آفات سے نابلد ہونے کی وجہ سے گالی گلوچ کرتا، بڑوں کا ادب کر نے کے بجائے ان سے زبان درازی کرتا، شاید یہ ہی وجہ تھی کہ پورے محلے میں لوگ مجھے بدتمیز جیسے برے نام سے مُخاطَب کرتے، مجھ سے بات کرنا گوارا نہ کرتے، خاندان والے بھی اس قدر بیزار تھے کہ اپنے بچوں کو بھی میرے سائے سے دور رہنے کی تاکید کرتے، الغرض میں گناہوں کی غلاظت سے اپنا دامن آلودہ کرنے میں مشغول تھا۔ اوراسی طرح زندگی کا ایک حصہ بیت چکا تھا ، نجانے مزید کب تک یہ گناہوں بھرا سلسلہ جاری رہتا، مگر مجھ پر کرم ہوگیا کہ میری اصلاح کا سبب بن گیا،ہوا کچھ یوں کہ ہمارے علاقے میں دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے منسلک ایک اسلامی بھائی رہتے تھے، جن کی گھڑیوں کی دکان تھی۔ ایک دن میں اپنی گھڑی درست کروانے کے لیے ان کی دکان پرجاپہنچا، اس وقت میری جیب میں تاش کے پتے رکھے ہوئے تھے ، جب پیسے نکالنے کے لیے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو تاش کے پتے جیب سے باہر نکل پڑے، اسلامی بھائی کی نظر تاش کے پتوں پر بنی بے ہودہ تصویر پر پڑی تو انہوں نے مجھ پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے نیکی کی دعوت پیش کی، سنّتوں بھرے اجتماع میں حاضری کا مدنی ذہن دیا، ان کا نیکی کی دعوت دینے کا انداز اس قدر اچھا تھا کہ میں متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور میں نے سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی نیت کرلی، گھڑی درست کروانے