بھائی کے بیان کالُبِّ لُباب ہے کہ بدقسمتی سے میرا اٹھنا بیٹھنا بد مذہبوں کے ساتھ تھا۔ وہ لوگ ٹولیاں بنا کر ہماری مسجد میں آتے اور اپنے مکر و فریب کے جال میں سادہ لوح مسلمانوں کو پھانسنے کی کوشش کرتے اور یوں ہم سب دوست مسلکِ حق اہلسنّت سے ناآشنائی کی بنا پر ان کے ساتھ بیٹھ جاتے مگر مقدر نے یاوری کی اس طرح کہ ایک روز میں نے اپنے گاؤں کے ایک اسلامی بھائی کو سر پر سبز سبز عمامے کا تاج، بدن پر سنّت کے مطابق سفید مدنی لباس اور چہرے پر داڑھی شریف سجائے دیکھا تو بس دیکھتاہی رہ گیا۔ ان کے حلیے میں عجیب کشش تھی بالخصوص عبادت کا نور ان کے چہرے سے نمایاں تھا۔ مسکرا کر خندہ پیشانی اور پُروقار انداز میں جب کسی سے ملاقات فرماتے تو نجانے کیوں نظریں انہیں دیکھ کر ادب سے جھک جاتیں۔ علاقے کا ہر فرد ان سے احترام سے پیش آتا۔ وہ اسلامی بھائی ہمارے علاقے کی ’’قبرستان والی مسجد‘‘ کے نام سے معروف مسجد میں آتے اور فیضانِ سنّت سے درس دیا کرتے۔ میں بھی ان کے مدنی حلیے سے متأثر ہو کر درسِ فیضانِ سنّت میں شرکت کرنے لگا۔ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے کے عظیم الشان فضائل سن کر میرے دل میں بھی درس دینے کا شوق مچلنے لگا۔ ایک روز میں نے خود ہی ان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ’’ برائے کرم مجھے بھی درس دینا سکھا دیجیے‘‘۔ میرا تو یہ کہنا تھا انہوں نے خوشی کا اظہار فرماتے