Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
99 - 952
حدیث نمبر99
روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے ۱؎ فرماتی ہیں کہ اولًا جس وحی کی رسول الله صلی الله علیہ و سلم پر ابتداء ہوئی وہ سوتے میں سچی خواب تھی۲؎ کہ آپ کوئی خواب نہ دیکھتے مگر وہ صبح کے ظہور کی طرح ظاہر ہوجاتی۳؎ پھر حضور کو خلوت پسند ہوگئی تو غار حرا میں خلوت کرتے تھے وہاں اس میں عبادت کرتے۴؎ تحنث کےمعنی ہیں اپنے گھر لوٹنے سے پہلے چند راتیں عبادت کرنا حضور اس کے لیے توشہ لے جاتے تھے۵؎ پھر جناب خدیجہ کی طرف لوٹتے تھے اور اتنی راتوں کے لیے توشہ لے جاتے تھے ۶؎ حتی کہ آپ پر حق آیا جبکہ آپ غار حراء میں تھے آپ کے پاس فرشتہ آیا ۷؎ عرض کیا پڑھئے فرمایا میں نہیں پڑھنے والا۸؎ پھر اس نے مجھے پکڑا مجھے گلے لگایا۹؎حتی کہ اسے مجھ سے مشقت پہنچی۱۰؎پھر مجھے چھوڑ دیا پھر کہا پڑھیئے میں نے کہا میں نہیں پڑھنے والا اس نے مجھے پھر پکڑا پھر مجھے دوبارہ گلے لگایا حتی کہ اس کو مجھ سے مشقت پہنچی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا پھر کہا پڑھیئے میں نے کہا میں نہیں پڑھنے والا اس نے مجھے تیسری بار پکڑا اور مجھے گلے لگایا حتی کہ اسے مجھ سے مشقت پہنچی پھر مجھے چھوڑ دیا ۱۱؎  پھرکہا پڑھیئے اپنے رب کا نام جس نے سب کچھ بنایا،جس نے جمے خون سے انسان بنایا پڑھیئے اور آپ کا رب عزت والا ہے جس نے قلم سے سکھایا ۱۲؎ انسان کو وہ سب سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۱۳؎ یہ وحی لے کر رسول الله صلی الله علیہ و سلم واپس ہوئے اس طرح کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا۱۴؎ جناب خدیجہ کے پاس گئے فرمایا مجھے چادر اوڑھا دو انہوں نے حضور کو چادر اوڑھائی حتی کہ آپ سے رعب جاتا رہا ۱۵؎  پھر بی بی خدیجہ کو یہ خبر دے کر فرمایا کہ میں اپنی جان پر خوف کرتا ہوں۱۶؎ خدیجہ بولیں رب کی قسم ہرگز نہیں الله آپ کو کبھی غمگین نہ کرے گا ۱۷؎کیونکہ آپ رشتہ جوڑتے ہیں،بات سچی کرتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں،نیستی والوں کے لیے کمائی کرتے ہیں،مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں، حق کی طرف لے جانے والوں کی مدد کرتے ہیں ۱۸؎ پھر حضور کو جناب خدیجہ ورقہ ابن نوفل کے پاس لےگئیں جو خدیجہ کے چچا زاد تھے ۱۹؎  ان سے بولیں اے چچیرے بھائی آپ اپنے بھتیجے سے تو سنیے۲۰؎ حضور نے ورقہ سے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو ۲۱؎ انہیں رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے وہ خبریں سنائیں جو آپ نے دیکھا تھا تو وررقہ نے کہا یہ وہی فرشتہ ہے جو الله نے موسیٰ علیہ السلام پر اتارا تھا۲۲؎  ہائے کاش میں اس زمانہ میں قوی جوان ہوتا۲۳؎  ہائے کاش میں زندہ ہوتا جب کہ آپ کو آپ کی قوم نکالے گی۲۴؎ تو رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ لوگ مجھے نکالیں گے عرض کیا ہاں۲۵؎  کوئی صاحب وہ پیغام نہ لائے جو آپ لائے ہیں مگر ان سے دشمنی کی گئی۲۶؎ اور اگر مجھ کو آپ کا وہ زمانہ نصیب ہو تو میں آپ کی بلیغ مددکروں۲۷؎ پھر ورقہ نہ ٹھہرے کہ ان کی وفات ہوگئی اور وحی بند ہوگئی ۲۸؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی مرسل حدیث ہے یعنی صحابی کے مراسیل میں سے ہےکیونکہ وہ زمانہ حضرت عائشہ صدیقہ نے پایا نہیں۔غالب یہ ہے کہ کسی صحابی سے سن کر فرما رہی ہیں،صحابی کی مرسل حدیث سب کے نزدیک حجت ہے۔(مرقات)اور ہوسکتا ہے کہ ام المؤمنین حضور سے سن کر فرمارہی ہوں مگر کسی روایت میں آپ نے حضور انور سے نقل نہ فرمائی۔

۲؎  اگرچہ حضور انور کو ہمیشہ ہی سچی خوابیں آتی تھیں مگر قریب ظہور نبوت یعنی چھ ماہ پہلے ان خوابوں کا سلسلہ بندھ گیا اور تعبیر کا ظہور بہت جلد ہونے لگا۔

۳؎  یعنی حضور کی خواب کا ظہور بہت جلد اور بالکل درست ہوتا تھا جیسے رات کے بعد بہت جلد سویرا ہوتا ہے۔

۴؎  غار حرا حضور انور کا چلہ گاہ ہے جو جبل نور کی چوٹی پر واقع ہے،یہ جبل نور مکہ معظمہ سے قریبًا دو میل فاصلہ پر جنت معلی سے آگے ہے،فقیر نے اس غار شریف میں نفل پڑھے ہیں۔

۵؎  یعنی کچھ روٹیاں پکوا کر وہاں غارِ حرا میں لے جاتے اور آٹھ دس دن تک باسی تہ باسی روٹیاں کھاتے،وہاں روزے نوافل،رکوع سجود ادا کرتے رہتے تھے۔اس حدیث سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ حضور انور نزول قرآن سے پہلے ہی عارف بالله تھے اور عبادات ریاضات سے واقف تھے۔جو کہے کہ حضور صلی الله علیہ و سلم نے قرآن سے الله تعالیٰ کو جانا پہچانا اور قرآن سے عبادات سیکھیں وہ جھوٹا ہے۔دیکھو ابھی قرآن کریم آنا بھی شروع نہ ہوا اور حضور عبادات کر رہے ہیں۔دوسرے یہ کہ بزرگوں کے چلے اور چلوں میں ریاضات،ترک حیوانات کرنا،روزے رکھنا،کم کھانا،معمولی کھانا سب درست ہیں ان سب کی اصل یہ ہی حدیث ہے۔خیال رہے کہ ام المؤمنین کا اس زمانہ کو راتیں فرمانا اس لیے ہے کہ خلوت کے لیے رات ہی مناسب ہے۔ذوات عدد فرماکر بتایا کہ بہت راتوں تک عبادت کرتے تھے،ذوات عدد کثرت کے لیے ہے۔

۶؎  اس میں گفتگو ہے کہ اس زمانہ میں حضور کونسی عبادت کرتے تھے۔حق یہ ہے کہ حضور انور کسی نبی کی شریعت والی عبادت نہیں کرتے تھے کیونکہ حضور صلی الله علیہ و سلم کسی نبی کے امتی نہیں بلکہ اجتہاد  اور  رائے سے عبادت کرتے تھے جو عبادت ابراہیمی یعنی اسلامی عبادت کے موافق تھیں۔(شامی شروع کتاب الطہارۃ اور شروع کتاب الصلوۃ)کلمہ طیبہ کا ذکر،الله کی صفات میں فکر،اعتکاف،رکوع،سجود وغیرہ(مرقات)میں تو ایک بار غار میں حاضر ہوا ہوں میرے ساتھیوں کو بخار آگیا تھا،سخت دشوار بہت اونچا اور پیچیدہ راستہ ہے۔قربان ان نرم و نازک تلوؤں پر جو ہر ہفتہ وہاں سے چڑھتے اترتے تھے۔

۷؎ یعنی جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے وحی لے کر،بعض نے فرمایا یہ اسرافیل علیہ السلام تھے۔(مرقات)یہ فرشتہ الله کا فرمان بھی لایا اور فیضان بھی سینہ سے لگا کر دیا فرمان زبانی پہنچایا جیساکہ آرہا ہے۔خیال رہے کہ اس وقت پہلے فرشتے نے اپنا تعارف نہیں کرایا کہ میں رب کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں جیسے جناب مریم سے کہا تھا"اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ"نہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو کہاں سے ہو کیونکہ آئے ہو۔معلوم ہوا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہلے سے جانتے پہچانتے تھے اگر نہ پہنچانتے تو آیۃ کریمہ"اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ"کا قرآن ہونا بھی نہ جانتے،یہ نہ جاننا شانِ نبوت بلکہ شان اسلام کے خلاف ہے۔قرآن کا جاننا پہچاننا ماننا فرض ہے بغیر جانے مانے گا کیا،بعض روایات میں ہے کہ حضور انور کو حریر ریشم کا ایک ٹکڑا دیا جس پر یہ سورت لکھی تھی اور کہا اسے پڑھئے۔(اشعہ)یا یہ معنی ہیں کہ جو میں پڑھاؤں وہ پڑھیئے۔(مرقات)مگر یہ دونوں توجیہیں قوی نہیں۔ظاہر یہ ہے کہ عرض کیا جو ذکر اور الله کا نام پہلے ہی سے آپ کے دل شریف پرنقش ہے وہ پڑھیئے اس لیے اقراء کا مفعول بیان نہ کیا کہ کیا پڑھئے۔

۸؎  عام شارحین اس کے معنی کرتے ہیں کہ مجھے پڑھنا نہیں آتا میں امی ہوں مگریہ قوی نہیں کیونکہ حضور انور کو رب نے لکھنے کی مشق نہیں دی تھی یہ ہی معنی ہیں امی کے۔(اشعہ)حضور کو الله کا نام لینا اس کا ذکر کرنا تو اول ہی سے آتا تھا آپ تو اس غار میں عبادات ذکر الله عرصہ سے کر رہے تھے اور اگر یہ معنی ہوں کہ میں نے پڑھنا کسی سے سیکھا نہیں تو حضرت جبریل یہ تو جانتے ہی تھے پھر اس سوال و جواب کے کیا معنی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے جبریل اس وقت میں نہیں پڑھنے والا اس وقت تو پڑھنے والے تم ہو سننے والا میں ہوں تاکہ نزول قرآن اور وحی الٰہی کے معنی درست ہوں۔وحی قولی کے معنی ہی یہ ہیں کہ فرشتہ کہے نبی سنے۔اس فرمان عالی میں اپنا منصب حضرت جبریل علیہ السلام کی خدمت اور قرآن کے درجے کا متعین فرماناہے۔

۹؎ غط کے معنی ہیں دبانا،نچوڑنا،اس پر طاقت صرف کرنا۔یہاں مراد ہے گلے لگا کر خوب زور سے دبانا،یہ معانقہ فیض ربانی سینہ نبوی تک پہنچانے کیے لیے تھا۔بعض مشائخ مصافحہ سے معانقہ سے بلکہ نظر سے توجہ باطنی دیتے ہیں اس کی اصل یہ حدیث ہے۔معلوم ہوا کہ حال قال سے پہلے ہے قال زبان سے حال توجہ سے دیا جاتا ہے۔

۱۰؎  اس عبارت کے معنی یہ نہیں کہ مجھے مشقت پہنچی ورنہ عبارت یوں ہوتی بلغنی الجھد۔یہاں لفظ منی سے معلوم ہوتاہے کہ میری طرف سے حضرت جبریل علیہ السلام کو مشقت پہنچی کہ انہوں نے سارا ملکی زور ختم کردیا۔الجہد یا تو بلغ کا فاعل ہے اور مرفوع ہے تو بلغ کا مفعول پوشیدہ ہے،بلغہ یا یہ مفعول ہے اور منصوب تو بلغ کا فاعل ھو پوشیدہ ہے یعنی جبریل کو میری طرف سے مشقت پہنچی یا وہ مشقت کو پہنچے کہ انہوں نے بہت ہی محنت سے وہ امانت فیض مجھ کو سونپی۔

۱۱؎ فیض کی امانت آہستہ تین بار ادا کی۔اس سے معلوم ہوا کہ فیض رسانی آہستگی سے ہوتی ہے۔یہ اس آیت کے نزول کی تمہید ہے جو اس وقت آنے والی ہے تاکہ اس کے حروف کا نزول کان پر ہو،اس کے فیض و نور کا نزول دل پاک پر اس عظیم مہمان کے لیے یہ گھر تیار کیا گیا۔مرقات نے فرمایا کہ پہلی بار جو ارشاد ہوا ما انا بقارئ وہاں ما نافیہ ہے اور اب تیسری بار جو فرمایا ما انا بقارئ اس میں ما استفہامیہ ہے یعنی اب بتاؤ میں کیا پڑھوں۔(مرقات)

۱۲؎ قوی یہ ہے کہ یہاں قلم سے مراد وہ پہلا قلم قدرت ہے جس نے لوح محفوظ پر تاقیامت سارے واقعات لکھے پھر لوح محفوظ کی اس تحریر کے ذریعہ فرشتوں نبیوں ولیوں کو سب کچھ بتایا سکھایا اس لیے اسے کتاب مبین کہتے ہیں یعنی مقبولوں پر اولین و آخرین کے علوم روشن کرنے والی۔اور ہوسکتا ہے کہ قلم سے مراد یہ ہی دنیاوی قلم ہوں یعنی اس قلم کے ذریعہ سینہ کے علوم محفوظ کیے جس سے اگلوں کے علوم پچھلوں نے سیکھے مگر پہلے معنی قوی بھی ہیں لذیذ بھی۔(اشعہ)یا قلم سے مراد حضور صلی الله علیہ و سلم کی زبان ہے جو رب کا قلم ہے جس کے ذریعہ تاقیامت ولیوں عالموں کو علوم سکھائے گئے،اس کی بہت نفیس تفسیریں ہمارے حاشیہ قرآن میں دیکھو۔

۱۳؎ قوی یہ ہے کہ الانسان سے مراد انسانیت کی جان حبیب الرحمن حضور محمد مصطفی صلی الله علیہ و سلم ہیں اور مالم یعلم سے مراد ہے سارے علوم غیبیہ۔اس کی اور بہت تفسیریں ہیں دیکھو ہمارا حاشیۃ القرآن یہاں بیان کی گنجائش نہیں۔ خیال رہے کہ یہاں بسم الله شریف کا ذکر نہیں۔معلوم ہوا کہ بسم الله ہر سورت کا جز نہیں اور نہ ہر صورت کے اول اتری یہ ہی امام اعظم کا مذہب ہے اور سب سے پہلی صورت اقراء شریف ہے۔سب سے اعلیٰ عبادت الله کا ذکر اس کا نام جپنا ہےکہ قرآن مجید میں پہلے اسی کا حکم دیا گیا۔

۱۴؎  یہ دل کانپنا اس فیض ربانی کا اثر تھا جو آج عطا ہوا تھا۔بعض مشائخ جب اپنے مرید کو سینے سے لگاکر توجہ دیتے ہیں تو وہ مرید بے ہوش ہوجاتا ہے گر پڑتا ہے یہ توجہ اگر پہاڑوں پر ڈالی جاتی تو پھٹ جاتا یہ تو حضور کا قوت والا دل ہے جو ٹھہرا رہا،رب فرماتاہے:"لَوْ اَنۡزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خٰشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ"۔

۱۵؎  یعنی کچھ دیر لگ جانے سکون سے لیٹنے سے صرف رعب ہی گیا۔فیضان و نورانیت میں بالکل کمی نہ ہوئی بلکہ دل شریف میں تحمل و برداشت ہوگئی۔

۱۶؎  یہاں کس چیز کا خوف مراد ہے اس میں بہت گفتگو ہے اپنی موت کا خوف یا دیوانگی و جنون کا خوف،یا نبوت کی ذمہ داری برداشت نہ کرسکنے کا خوف،یا قوم کی ایذا رسانی کا خوف آخری احتمال قوی ہے۔حضرت خدیجہ وہ خوش نصیب بی بی ہیں کہ نبوت کی پہلی خبر انہیں ملی۔

۱۷؎  یعنی جس نے درد دیا وہ ہی دوا دے گا،جس نے نبوت آپ کو دی ہے وہ برداشت و تحمل کی طاقت دے گا اور کفار کی شر سے آپ کو محفوظ رکھے گا۔

۱۸؎  جناب خدیجہ نے حضور کی چھ صفات حضور کو سنائیں: عزیزوں پر مہربانی،ہمیشہ سچ بولنا،لوگوں کے بوجھ اپنے پر لے لینا،فرض اولاد خصوصًا بچیوں کی پرورش،بے دست و پا فقیروں کو کماکر کھلانا،مہمان نوازی کرنا،غیبی مصیبتوں میں لوگوں کی مدد کرنا۔مقصد یہ ہے کہ آپ ان علامتوں کی وجہ سے بحکم توریت آخری نبی ہیں آپ کا سورج بلند ہوگا،آپ کا دین غالب ہوگا۔حضرت خدیجہ توریت کی عالمہ تھیں اور علماء اسرائیل سے بھی آپ نے حضور کی یہ علامات سنی تھیں اس وجہ سے تو حضور سے نکاح کیا۔اس تقریر سے معلوم ہوا کہ حضور انور اول سے ہی ایسی عالی صفات سے موصوف تھے،نزول قرآن کے بعد ان سے موصوف نہ ہوئے۔حضور کو قرآن نے یہ چیزیں نہ سکھائیں بلکہ رب نے سکھا کر بھیجا۔معلوم ہوا کہ اچھے صفات اچھے اعمال بلائیں دفع کرتے ہیں حفاظت الٰہی میں رکھتے ہیں۔

۱۹؎ حضرت خدیجہ بنت خویلد ابن اسد ابن عبدالعزیٰ ہیں اور جناب ورقہ ابن نوفل ابن اسد ہیں لہذا جناب خدیجہ اور ورقہ اسد میں مل جاتے ہیں،نوفل جناب خدیجہ کے چچا زاد ہیں۔

۲۰؎  حضور رشتہ میں ورقہ کے بھتیجے نہیں مگر اہل عرب محبت و پیار میں اپنے کم عمروں کو بھتیجا یا بیٹا کہہ دیتے ہیں وہ محاورہ یہاں استعمال ہواہے۔

۲۱؎ ورقہ زمانہ جاہلیت میں عیسائی بن گئے تھے،انجیل کا ترجمہ عربی میں آپ نے کیاتھا،توریت و انجیل کے بڑے ماہر تھے،اس وقت بہت بوڑھے تھے نابینا ہوچکے تھے،صاحب مشکوۃ نے آپ کو صحابہ کی فہرست میں لیا ہے دیکھو اکمال مگر قوی یہ ہے کہ ورقہ صحابی نہیں کیونکہ صحابی وہ ہے جو شرعی مؤمن بن چکنے کے بعد حضور کا دیدار یا صحبت پائے اور شرعی ایمان تبلیغ کی آیات آنے حضور کی تبلیغ اور دعوت اسلام دینے پر حاصل ہوتا ہے ورقہ نے وہ وہ زمانہ نہ پایا اس واقعہ کے بعد ہی فوت ہوگئے۔ اسی لیے اول صحابی ابو بکر صدیق ہیں نہ کہ  ورقہ ابن نوفل اگر  ورقہ صحابی ہوتے تو اول صحابی ہوتے کہ حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے انہیں کو اپنی وحی کی خبر دی ابھی صحابی بننے کا زمانہ شروع ہی نہیں ہوا تھا۔اعلان نبوت کے بعد جو شرعی ایمان لاکر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے وہ صحابی ہوتا ہے اس لیے جناب آمنہ عبدالمطلب کو کسی نے صحابی نہیں کہا۔

۲۲؎ صاحب اسرار یعنی بھیدی ساتھی اگر خیر ہو تو ناموس کہلاتا ہے،شر ہو تو جاسوس کہا جاتا ہے یہاں جبریل مراد ہیں۔ چونکہ موسیٰ علیہ السلام پہلے صاحبِ شریعت صاحب کتاب نبی ہیں اس لیے ورقہ نے ان کا نام لیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام نہ لیا،بعض لوگوں نے کہا کہ ورقہ کے بتانے پر حضور انور کو خبر ہوئی کہ وہ جبریل تھے یہ محض غلط ہے ورنہ لازم آوے گا کہ اتنے وقت تک حضور اس آیت کے کلام الٰہی ہونے سے بے خبر رہے ورقہ کے کہنے سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جانا کہ یہ آیت"اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ"کلام الٰہی ہے۔بی بی خدیجہ اور ورقہ مکہ بلکہ عرب میں بڑے معزز علماء میں سے مانے جاتے تھے۔منشاء الٰہی یہ تھا کہ پہلے ان دونوں سے حضور انور کی نبوت کی گواہی دلوائی جائے پھر تبلیغ اسلام کا حکم حضور کو دیا جاوے اس لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم پہلے ان دونوں کے پاس تشریف لے گئے،یہ تشریف لے جانا اپنے جاننے کے لیے نہ تھا بلکہ لوگوں کو بتانے سمجھانے کے لیے تھا۔

۲۳؎  عربی میں بکری کے دو سالہ بچہ کو اور اونٹ کے پانچ سالہ بچہ کو جذع کہتے ہیں،اس عمر میں وہ دونوں قوی جوان ہو جاتے ہیں اس لیے ہر قوی جوان کو جذع کہنے لگے وہ ہی معنی یہاں ہیں۔فیھا میں ھا ضمیر مدت نبوت کو یا مدت نبوت تبلیغ کی طرف ہے یعنی جب آپ کو تبلیغ کا حکم دیا جاوے گا اس وقت میں جوان ہوتا تو آپ کی خدمت کرتا۔

۲۴؎  معلوم ہوتا ہے کہ ورقہ نے حضور انور کے سارے پیش آنے والے واقعات گذشتہ کتابوں میں پڑھے تھے۔خیال رہے کہ اپنی نبوت کا علم ورقہ کے بتانے سے نہیں ہوا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو تو بچپن شریف میں پتھر درخت بایں الفاظ سلام کرتے تھے السلام علیك یارسول الله جیساکہ باب المعجزات میں آوے گا۔والدہ ماجدہ آمنہ کی بشارتیں،جناب حلیمہ کی حکایتیں اپنے متعلق حضور سن چکے تھے،آپ اپنی نبوت سے اس وقت خبردار تھے جب کہ دنیابھی نہیں بنی تھی دیکھو کتاب نشر الطیب مصنفہ مولوی اشرف علی تھانوی۔یہ سب کچھ انتظام لوگوں کو سنانے کا ہو رہا ہے کہ لوگ ورقہ کی زبان سے سن لیں اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے عالی صفات اعلٰی واقعات سے خبردار ہو جائیں۔

۲۵؎ خیال رہے کہ یہاں نکالنے سے مراد ہے اتنا تنگ کرنا کہ حضور مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں نہ کہ خود نکالنا کفار مکہ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنا چاہتے تھے نہ کہ نکالنا وہ تو قتل کے لیے ڈھونڈتے پھرے۔حضور انور کا ان سے یہ پوچھنا بھی اسی لیے تھا کہ لوگ ورقہ کی زبان سے ہجرت کی خبر سن لیں اور ہجرت کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کی دلیل سمجھیں۔

۲۶؎ اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ قریبًا سارے نبیوں نے ہجرت کی الا ماشاءالله۔خیال رہے کہ دشمنی سارے نبیوں سے کی گئی ہجرت اور جہاد اکثر نبیوں نے کیے۔خیال رہے کہ حضور انور سے پہلے بعض لوگ اصلی عیسائیت پر قائم تھے مگر خال خال وہ بھی پہاڑوں غاروں میں چھپے چھپائے،جناب ورقہ اور سلمان فارسی جیسے لوگوں نے انہیں راہبوں سے یہ علوم حاصل کیے تھے،انہیں علوم کی برکت سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو جانا پہچانا تھا۔

۲۷؎  مؤزر بنا ہے ازر سے بمعنی پشت اور پشت پناہی و قوت،رب فرماتا تھا"اشْدُدْ بِہٖۤ اَزْرِیۡ"مؤزر بمعنی مضبوط و قوی۔

۲۸؎  یعنی"اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ"پہلی وحی کے نزول سے کچھ دن بعد ہی ورقہ کا انتقال ہوگیا اور صرف یہ ہی ایک وحی آکر بند ہوگئی،کتنے روز بند رہی اس میں بہت گفتگو ہے۔غالب یہ ہے کہ چھ ماہ بند رہی اسی دوران میں حضرت جبریل آتے تھے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تھے مگر وحی نہ لاتے تھے۔(اشعہ)مرقات نے فرمایا کہ"اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ"پہلی وحی ہے اور"یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنۡذِرْ"دوسری وحی ان دونوں کے درمیان کچھ دنوں کا فاصلہ ہے۔وحی بند ہونے میں بڑی حکمتیں تھیں قلب پاک کو سکون بخشنا،حضور کو شوق وحی زیادہ کرنا وغیرہ۔(مرقات)
Flag Counter