مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
بخاری نے یہ زیادتی کی کہ حتی کہ نبی صلی الله علیہ و سلم غمگین ہوئے جو روایت ہم کو پہنچی ہے ۱؎ اس میں ہے کہ آپ سخت غمگین بارہا صبح کے وقت گئے تاکہ اپنے کو اونچی پہاڑ کی چوٹی سے گرادیں۲؎ مگر جب کبھی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے تاکہ وہاں سے اپنے کو گرادیں تو حضرت جبریل حضور کے سامنے آتے کہتے اے محمدآپ الله کے سچے رسول ہیں اس سے آپ کا قلق جاتا رہتا اور آپ کا دل مطمئن ہوجاتا ۳؎
شرح
۱؎ یہ عبارت فیما بلغنا کسی راوی کا قول ہے یعنی پہلے تو قلب پاک پر رعب اور خوف تھا اور اب شوق کا دریا موجیں مار رہا تھا مگر ادھر سے خاموشی تھی۔شعر دیر است کہ دلدار پیامے نہ فرستاد ننوشت سلامی نہ فرستاد کلامے ۲؎ یعنی شوق و فراق برداشت سے باہر ہوگیا تو اپنے کو ہلاک کرنے کے لیے پہاڑ پر چڑھے کہ وہاں سے اپنے کو گرا کر خودکشی کریں اس وقت تک احکام شرعیہ نہیں آئے تھے لہذا یہ ارادہ گناہ نہ تھا۔ ۳؎ یعنی جبریل امین آکر عرض کرتے تھے کہ آپ ہیں سچے رسول وحی الٰہی آئے گی اور بارہا آئے گی آپ غم نہ کریں۔یہ سنکر حضور انور واپس گھر لوٹ آتے پھر شوق کا جوش ہوتا پھر وہی ارادہ فرماتے سبحان الله! کیا انداز محبوبانہ ہے کہ کلام بھی نہیں فرماتے آگے بڑھنے بھی نہیں دیتے۔شعر دیکر جھلک سی آپ تو پردہ میں چھپ رہے اور کہہ گئے کہ آنکھ سے ڈھونڈھا کرے کوئی