مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اے عائشہ اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں ۱؎ میرے پاس ایک فرشتہ آیا جس کی کمر کعبہ کے برابرتھی۲؎ اس نے عرض کیا کہ آپ کا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو بندگی والے نبی بنیں اور اگر چاہیں تو بادشاہ نبی بنیں۳؎ تو میں نے جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا۴؎ تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ اپنی ذات میں انکسار کریں ۵؎
شرح
۱؎ اس فرمان عالی سے معلوم ہوا کہ حضور جو چاہیں رب تعالٰی وہ ہی کردے جسے جو چاہیں اپنے رب کے حکم سے دے دیں حتی کہ حضرت ربیعہ نے حضور انور سے جنت مانگی بلکہ جنت میں آپ کی ہمراہی مانگی حضور نے انہیں عطا فرمائی جیساکہ جلد اول باب السجود میں حدیث گزری۔شعر کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے سرکار بنایا تمہیں مختار بنایا خیال میں رہے یعنی اگر ہم یہ چاہیں۔مولانا فرماتے ہیں ؎ یاد او سرمایہ ایماں بود ہر گدا از یاد اوسلطان بود تو کریمی من کمینہ بندہ ام لیک از لطف شما پروردہ ام ۲؎ اس فرمان عالی سے اس فرشتہ کی قدر آوری اور درازی بیان فرمانا مقصود ہے کہ وہ کعبہ معظمہ سے دو گنا بلند تھا۔ ۳؎ حضرات انبیاءکرام اکثر مساکین تھے،حضرت سلیمان و داؤد علیہما السلام بادشاہ نبی تھے آپ کو اختیار ہے کہ آپ مسکین نبی ہونا قبول فرماویں یا بادشاہت والے نبی بنیں۔اس سے معلوم ہوا کہ تمام جہان رب تعالٰی کی رضا چاہتا ہے اور اللہ تعالٰی حضور کی رضا چاہتا ہے۔ ۴؎ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل امین کو مشورہ کے لیے دیکھا اشارۃً فرمایا کہ اے جبریل تمہاری کیا رائے ہے۔معلوم ہوا کہ اپنے ماتحتوں سے مشورہ کرلینا بھی سنت ہے۔ ۵؎ یعنی اے محبوب حضور مسکینیت اور عبدیت اختیار فرماویں کہ یہ غنا سے افضل و اعلیٰ ہے۔معلوم ہوا کہ مسکین صابر اعلیٰ ہے غنی شاکر سے،رب تعالٰی نے شکر کی جزا زیادتی نعمت بتلائی ہے:"لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّکُمْ"اور صبر کی جزا خود ذات پروردگار ہے،فرماتا ہے:"اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ"۔خیال رہے کہ اگرچہ حضور انور سارے حجاز کے بادشاہ ظاہری بھی ہوئے مگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی شاہانہ نہیں گزاری بلکہ درویشانہ گزاری مسکینیت کا یہ ہی مطلب ہے۔شعر دولت دنیاخاک برابرہاتھ کےخالی دل کےتونگر ہاتھ کا تکیہ خاک کا بستر صلی اللہ علیہ وسلم