Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
92 - 952
حدیث نمبر92
روایت ہے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر زیادہ کرتے تھے اور دنیاوی کلام بہت کم کرتے تھے ۱؎  اور نماز دراز کرتے تھے اور خطبہ چھوٹا پڑھتے تھے۲؎  اور بیوگان، مساکین کے ساتھ چلنے سے عار نہیں سمجھتے تھے کہ ان کی حاجت پوری فرمادیں۳؎ (نسائی،دارمی)
شرح
۱؎ خیال رہے کہ لغو کے معنی ہیں بے کار کام یا بے کار کلام،یہاں کلام دنیا کو لغو فرمایا ذکر اللہ کے مقابلہ میں وہ بھی حضور انور کی نسبت ہے ورنہ حضور انور کی دنیا عین دین ہے۔حضور کے دنیاوی کام ہماری ہزارہا عبادات سے افضل ہیں حتی کہ حضور انور کا مزاح(خوش طبعی کی باتیں)بھی دین تھیں کہ ان میں بھی تبلیغ تھی ہم کو مزاح دکھانا مقصود تھا۔

۲؎  یعنی جمعہ اور عیدین کے خطبے چھوٹے پڑھتے تھے نمازیں دراز کیونکہ نماز میں رب تعالٰی سے ہم کلامی ہوتی ہے وہ معراج مؤمن ہے اور خطبہ میں لوگوں سے خطاب کم ہی اچھا ہے رب سے ہم کلامی دراز ہی بہتر ہے۔(از مرقات)ا ب بھی سنت یہ ہی ہے۔

۳؎  یعنی حضور انور کو غریبوں،یتیموں،مسافروں،بیوگان کے ساتھ رہنے سہنے،چلنے پھرنے،ان کا کام کرنے میں کوئی عار نہ تھی،فرشتوں کے بھی ہم نشین تھے عابدوں زاہدوں کے بھی اور گنہگاروں مساکین کے بھی۔شعر

شاہِ باز لامکانی آن او				رحمت للعالمین درشان او
Flag Counter