۱؎ خیال رہے کہ لغو کے معنی ہیں بے کار کام یا بے کار کلام،یہاں کلام دنیا کو لغو فرمایا ذکر اللہ کے مقابلہ میں وہ بھی حضور انور کی نسبت ہے ورنہ حضور انور کی دنیا عین دین ہے۔حضور کے دنیاوی کام ہماری ہزارہا عبادات سے افضل ہیں حتی کہ حضور انور کا مزاح(خوش طبعی کی باتیں)بھی دین تھیں کہ ان میں بھی تبلیغ تھی ہم کو مزاح دکھانا مقصود تھا۔
۲؎ یعنی جمعہ اور عیدین کے خطبے چھوٹے پڑھتے تھے نمازیں دراز کیونکہ نماز میں رب تعالٰی سے ہم کلامی ہوتی ہے وہ معراج مؤمن ہے اور خطبہ میں لوگوں سے خطاب کم ہی اچھا ہے رب سے ہم کلامی دراز ہی بہتر ہے۔(از مرقات)ا ب بھی سنت یہ ہی ہے۔
۳؎ یعنی حضور انور کو غریبوں،یتیموں،مسافروں،بیوگان کے ساتھ رہنے سہنے،چلنے پھرنے،ان کا کام کرنے میں کوئی عار نہ تھی،فرشتوں کے بھی ہم نشین تھے عابدوں زاہدوں کے بھی اور گنہگاروں مساکین کے بھی۔شعر
شاہِ باز لامکانی آن او رحمت للعالمین درشان او