Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
91 - 952
حدیث نمبر91
روایت ہے حضرت علی سے کہ ایک یہودی جس کا نام فلاں پادری تھا  ۱؎  اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ دینار قرض تھے۲؎ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تقاضا کیا۳؎ حضور نے اس سے فرمایا کہ اے یہودی میرے پاس کچھ نہیں ہے جو تجھے دوں۴؎  وہ بولا کہ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں حتی کہ آپ مجھے قرضہ ادا کردیں ۵؎ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تب تو میں تیرے ساتھ ہی بیٹھوں گا آپ اس کے ساتھ بیٹھ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر عصر مغرب عشاء آخری اور فجر کی نمازیں پڑھیں ۶؎  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اسے ڈراتے دھمکاتے تھے۷؎  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھ لیا ۸؎  جو وہ اس کے ساتھ کرتے تھے،صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ایک یہودی آپ کو روکے ہوئے ہے ۹؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے میرے رب نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کسی عہد والے کافر وغیرہ پر ظلم کروں۱۰؎ پھر جب دن چڑھ گیا تو یہودی بولا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں ۱۱؎  اور میرا آدھا مال اللہ کی راہ میں ہے۱۲؎ حضور جو کچھ میں نے آپ کے ساتھ برتاؤ کیا یہ صرف اس لیے کہ میں آپ میں صفات دیکھ لوں جو توریت میں ہیں۱۳؎  کہ محمدعبداللہ کے بیٹے ہیں،ان کی جائے ولادت مکہ اور جائے ہجرت طیبہ ہے اور ان کی سلطنت شام میں ہے۱۴؎ نہ تو سخت دل ہیں نہ سخت زبان اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے،نہ تو بری باتوں سے متصف ہیں اور نہ سخت کلام برے کلام سے۱۵؎  میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ ہے میرا مال آپ اس میں وہ فیصلہ فرمائیں جو اللہ آپ کو دکھائے ۱۶؎ یہودی بہت بڑا مال دار تھا ۱۷؎ (بیہقی دلائل النبوۃ)
شرح
۱؎ یعنی حضرت علی نے اس یہودی کا نام بتایا تھا مگر راوی کو یاد نہ رہا تھا وہ اپنے مذہب کا بڑ ا عالم تھا۔حبر عالم یہود کو کہتے ہیں،جمع ہے احبار،محدثین نے بھی اس یہودی کا نام نہ بتایا۔

۲؎  یعنی حضور انور نے اس یہودی پادری سے ضرورۃً چند اشرفیاں قرض لی تھیں۔اس سے معلوم ہوا کہ کفار سے مالی معاملات حتی کہ قرض کا لین دین بھی جائز ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ جس کا مال مخلوط ہو کہ اس کی کمائی حرام بھی ہو حلال بھی اس سے قرض ہدیہ لینا درست ہے،دیکھو یہود کے متعلق قرآن کریم فرماتاہے:"اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ "یہ بڑے حرام خور ہیں،رشوتیں،سود جوئے بھی ان کی کمائیاں تھیں مگر حضور انور نے ان سے قرض لیا،اس سے بہت دینی مسئلے حاصل ہوں گے۔

۳؎  اس یہودی کا یہ تقاضا مقررہ مدت سے پہلے تھا۔خیال رہے کہ قرض یعنی دست گرداں میں مدت مقرر لازم نہیں ہوتی،قرض خواہ طے شدہ وقت سے پہلے بھی تقاضا کرسکتا ہے مگر کاروباری قرض جسے دین کہتے ہیں جیسے کوئی چیز خریدی اس کی قیمت قرض کرلی اس میں طے شدہ مدت سے پہلے قرض خواہ کو تقاضا کرنے کا حق نہیں ہوتا۔

۴؎  اس فرمان عالی میں حضور انور کی طرف سے وعدہ خلافی نہیں بلکہ وعدہ خلافی اس قرض خواہ یہودی کی طرف سے تھی کہ وہ طے شدہ مدت سے پہلے ہی قرضہ وصول کرنے آگیا تھا۔

۵؎  فقہ میں اسے ملازمت کہتے ہیں یعنی قرض خواہ مقروض کے ساتھ رہے کہے کہ میں تجھے بغیر قرضہ وصول کیے چھوڑوں گا نہیں۔

۶؎  غالبًا یہ واقعہ مسجد نبوی شریف میں ہوا کہ وہ یہودی مسجد میں ہی حضور انور کے ساتھ بیٹھ گیا حضورصلی اللہ علیہ وسلم مسجد شریف میں ہی باجماعت نماز پڑھتے رہے اور اس یہودی کے ساتھ بیٹھے رہے۔یہودی کافر تھا،کفار مسجد میں آسکتے ہیں،قرآن مجید میں جو ہے"اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَایَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ"وہاں نجاست سے مراد عقیدوں کی گندگی اور وہاں مشرکین کو حج بیت اللہ سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔

 ۷؎ تھدد اور توعد دونوں کے معنی ہیں دھمکانا ڈرانا۔یہاں تھدد سے مراد ہے مار پیٹ سے ڈرانا اور توعد سے مراد ہے نکال دینے سے ڈرانا وہ حضرات چپکے چپکے اسے ڈراتے دھمکاتے تھے جیساکہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے۔

۸؎  یعنی قرائن و علامات سے حضور انور نے سمجھ لیا کہ ہمارے صحابہ اس یہودی کو ڈرا رہے ہیں۔فطن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور انور نے علامات سے معلوم کیا۔یہ ہے اسلام کا عدل و انصاف اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہ ہیں، مسلمان حاکم قوم ہیں،وہ یہودی مسلمانوں کی رعیت کا ایک شخص ہے سلطان اسلام پر وہ ایسی سختی کررہا ہے اور اس کو اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا جاتا ایسا عدل و انصاف کسی قوم نے نہیں کیا ہوگا۔

۹؎  صحابہ کی یہ عرض و معروض بطور تعجب ہے کہ ایک ذلیل حقیر یہودی جو آپ کی رعایا ہمارا ماتحت ہے اس نے پہلی زیادتی تو یہ کی کہ وقت سے پہلے قرضہ کا مطالبہ کیا،پھر اس کا یہ ظلم کہ آپ کے ساتھ رہ پڑا ہم کو اجازت دیں کہ ہم اسے ان حرکتوں کا مزہ چکھادیں۔ان حضرات کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس کو ڈراتے دھمکاتے ہیں،اس کی زیادتی کی وجہ سے ہم کو اس کی اجازت دینی چاہیے۔خیال رہے کہ یا تو ان حضرات کے پاس روپیہ تھا نہیں کہ حضور انور کا قرض ادا کر دیتے یا حضور انور کو یہ منظور نہ تھا،یا ان حضرات کو اس یہودی کا وقت سے پہلے مطالبہ کرنا پسند نہ تھا،ان وجوہ سے ان حضرات نے حضور کا قرض ادا نہ کیا بلکہ اور طرح دھمکایا لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ صحابہ نے قرض ہی ادا کیوں نہ کردیا۔(از مرقات)حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرات صحابہ کرام سے قرض نہیں لیتے تھے بلکہ غیرمسلموں سے یعنی اپنی رعایا یہود وغیرہ سے قرض لیتے تھے۔(مرقات)

۱۰؎  معاہد سے مراد ذمی کافر ہے اور غیر معاہد سے مراد مستامن کافر ہے یا معاہد سے مراد ہے ذمی و مستامن دونوں قسم کے کفار اور غیر معاہد سے مراد ہیں حربی کفار کہ ظلم حربی کافر پر بھی جائز نہیں،یا معاہد سے مراد ہیں ذمی مستامن کفار اور غیر معاہد سے مراد ہیں سارے انسان۔خیال رہے کہ ذمی پرظلم کرنا بمقابلہ مسلمان پر ظلم کرنے کے زیادہ برا ہے کیونکہ مسلمان کے قرض کا نتیجہ قیامت میں یہ ہوگا کہ یا تو مقروض کی نیکیاں قرض خواہ کو دے دی جائیں یا قرض خواہ کے گناہ مقروض پر ڈال دیئے جائیں۔اگر کافر قرض خواہ یا مظلوم ہے اور مسلمان ظالم ہے تو یہ دونوں صورتیں وہاں ناممکن ہیں اسی لیے کافر پر ظلم بدتر ہے مسلمان پر ظلم کرنے سے جیسے جانوروں پر ظلم کرنا بدتر ہے انسان پر ظلم کرنے سے کہ جانور کسی سے شکایت نہیں کرسکتا دیکھو مرقات یہ ہی مقام،نیز جانور کے ظلم کا مسئلہ شامی میں بھی ہے۔خیال رہے کہ حضور انور نے یہاں قرض مارنے کا ظلم نہیں فرمایا ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی نیت یہ تو تھی ہی نہیں بلکہ قرض خواہ کے پاس نہ بیٹھنے کو اسے ڈرانے دھمکانے کو ظلم قرار دیا ہے اس لیے فرمایا کہ مجھے اس کے پاس بیٹھناچاہیے۔ حربی کفار کا مال جنگ میں غنیمت میں لینا جائز ہے امانت،قرض،عاریت کافر کی بھی ادا کرنی پڑے گی۔

۱۱؎  یعنی میں دیکھ کر اللہ کی توحید اور آپ کی نبوت کی گواہی دیتا ہوں اس کی تفصیل ابھی آگے آرہی ہے۔

۱۲؎  یعنی میں مسلمان ہوتا ہوں اور اسلام کی توفیق ملنے کی خوشی میں اپنا آدھا مال اﷲ کی راہ میں خیرات کرتا ہوں۔یہ اس کا شکریہ ہے کہ رب نے مجھے اسلام کے ساتھ صحابیت  کا شرف بھی بخشا۔

۱۳؎ یعنی میں نے آپ کی صورت آپ کا حلیہ توریت کے بیان کے مطابق پایا مگر وہ سیرت پاک اور دیکھنی تھی جو توریت شریف میں آپ کی بیان کی گئی ہے۔میری یہ سخت روی اس کی تحقیق کے لیے تھی ورنہ قصور تو میرا ہے کہ میں نے وقت سے پہلے قرض کا مطالبہ کیا۔

۱۴؎ اس کی شرح ابھی کچھ پہلے گزر گئی کہ اسلام میں پہلے سلطان جناب امیرمعاویہ ہیں،ان کا دارالخلافہ دمشق تھا جو شام کا پایہ تخت ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ کی سلطنت بالکل حق ہے جیسے خلفاء راشدین کی خلافت بالکل درست و حق ہے،نیز یہ کہ امیر معاویہ کی سلطنت حضور انور کی سلطنت ہے۔سلطنت اور خلافت نیز سلطنت اور خلافت راشدہ میں بڑا فرق ہے۔سلطان اسلام مسلمانوں کے صرف اجسام کا حاکم ہوتا ہے اور خلیفۃ المسلمین مسلمانوں کے جسم و قلب و روح سب کا حاکم ہوتا ہے۔رسول اللہ کا جانشین اس کی بیعت سلطنت کی بیعت بھی ہے طریقت کی بیعت بھی کہ وہ مسلمانوں کا بادشاہ بھی ہوتا ہے اور پیر طریقت بھی اس لیے حضرات خلفاء راشدین کے زمانہ میں لوگ مشائخ کی بیعت نہ کرتے تھے،امیر معاویہ کے زمانہ سے یہ طریقت کی بیعت علیحدہ ہوئی لوگوں نے شیخ اختیار کیے۔

۱۵؎ متزی بنا ہے زی سے بمعنی لباس وہیبت،متزی باب تفعل کا اسم فاعل برے برتاوے بری باتوں سے متلوث، فحش کے معنی ہیں حد سے بڑھی ہوئی چیز،خنا بمعنی بیہودہ۔

۱۶؎ یعنی میں نے یہ مال اللہ کی راہ میں خیرات تو کردیا مگر اسے تقسیم حضور انور کریں،حضور میرے اور میرے مال کے مالک و مختار ہیں جہاں چاہیں جسے چاہیں عطا فرمادیں۔

۱۷؎ اب مال کے ساتھ اس کا حال،اس کا مآل(انجام)بھی اچھا ہوگیا یہ ہے خوش نصیبی۔
Flag Counter