Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
90 - 952
الفصل الثالث

تیسری فصل
حدیث نمبر90
روایت ہے حضرت عمرو ابن سعید سے وہ حضرت انس سے راوی ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے کسی کو نہ دیکھا جو بال بچوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مہربان ہو ۱؎  آپ کے فرزند ابراہیم۲؎  بیرون مدینہ میں شیرخوارگی کرتے تھے ۳؎ تو آپ تشریف لے جاتے تھے ہم آپ کے ساتھ ہوتے تھے آپ گھر میں تشریف لے جاتے حالانکہ وہاں دھواں ہوتا تھا ان کا رضاعی والد لوہار تھا۴؎  آپ بچے کو لیتے اسے چومتے پھر لوٹ آتے۵؎ حضرت عمرو نے فرمایا پھر جب ابراہیم وفات پاگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا بچہ ابراہیم شیرخوارگی میں وفات پاگیا ۶؎ اس کے لیے دو دوائیاں مقرر ہیں جو اس کی شیر خوارگی جنت میں پوری کریں ۷؎(مسلم)
شرح
۱؎ عیال بنا ہے عول سے بمعنی پرورش ہر پروردہ پالنے والے کا عیال ہے،رب فرماتاہے:"وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی"ہم نے آپ کو بڑا عیال والا پایا تو غنی کردیا۔یہاں عیال سے مراد یا تو بیویاں بچے ہیں یا ساری حضور کی امت ہے کہ سب لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ ہیں۔مرقات نے یہاں فرمایا کہ بعض نسخوں میں بالعباد ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بال بچوں پر بہت ہی مہربان تھے یا اپنی امت پر بہت ہی مہربان ہیں،پہلے معنی کی تائید تو اگلا واقعہ کررہا ہے دوسرے معنی کی تائید وہ آیت ہے"بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ"۔

۲؎  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بیٹے تھے اور چار بیٹیاں: بیٹے تو طیب،طاہر،قاسم،ابراہیم ہیں۔صاحبزادیاں زینب،رقیہ، کلثوم،فاطمہ ہیں رضی اللہ عنہم ساری اولاد حضرت خدیجۃ الکبری کے بطن شریف سے تھیں سوائے حضرت ابراہیم کے کہ وہ جناب ماریہ قبطیہ کے بطن شریف سے تھے۔حضور کی زندگی شریف میں ساری اولاد وفات پاگئی تھیں سواء جناب فاطمہ زہرا کے جو حضور کی وفات کے صرف پانچ ماہ کچھ دن بعد وفات پاگئیں۔

۳؎  عوالی جمع ہے عالیہ کی بمعنی بلند جگہ عوالی مدینہ بستی مدینہ کے آس پاس کے وہ مقام جو مدینہ منورہ سے ملحق ہیں چونکہ وہ زمین مدینہ سے قدرے بلند ہے اس لیے انہیں عوالی کہتے ہیں۔مسجد قبا،بنی قریظہ اس عوالی میں واقع ہیں،اس فقیر نے عوالی مدینہ کی بارہا زیارت کی ہے۔

۴؎  حضرت ابراہیم ابن رسول اللہ کی دایہ دودھ کی ماں کا نام ام یوسف تھا اور اس کے شوہر کا نام براہ ابن اوس انصاری تھا،کنیت ابو سمین تھی،لقب قین تھا یعنی لوہار کیونکہ وہ لوہاری پیشہ کرتے تھے اس لیے انکے گھر میں دھواں بھی ہوتا تھا۔اس گنہگار نے اس گھر کی زیارت کی ہے،جنت بقیع سے قریبًا نصف میل ہے۔خیال رہے کہ ظئر دایہ کو بھی کہتے ہیں اور دایہ کے خاوند کو بھی،یہاں ظئر دوسرے معنی میں ہیں۔

۵؎  یعنی حضور انور ہفتہ عشرہ میں ابوسمین کے گھر اپنا بچہ ابراہیم دیکھنے جاتے وہاں باوجود دھوئیں کے کچھ دیر تشریف رکھتے،فرزند کو چومتے پیار کرتے،پھر واپس تشریف لے آتے تھے۔

۶؎  خیال رہے کہ حضرت ماریہ قبطیہ حضور انور کی لونڈی تھیں جنہیں مصرواسکندریہ کے بادشاہ مقوقش قبطی نے حضور انور کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا تھا،ذی الحجہ       ۸؁  آٹھ میں انہیں کے بطن شریف سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے تھے۔یہ سب مانتے ہیں کہ جناب ابراہیم شیرخوارگی میں فوت ہوئے،اس میں اختلاف ہے کہ اس وقت آپ کی عمر کیا تھی غالبًا سولہ یا سترہ ماہ تھی جیساکہ مرقات وغیرہ میں ہے۔

۷؎ یعنی حضرت ابراہیم وفات پاتے ہی جنت میں پہنچا دیئے گئے اور دو صاحبہ وہاں انہیں دودھ پلانے کے لیے مقرر کردی گئیں جو انہیں بقیہ ماہ دودھ پلائیں گی اپنا دودھ یا جنت کی نہر کا دودھ یہ جناب ابراہیم کی خصوصیت ہے۔بعض روایات میں ہے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتے تو نبی ہوتے۔اس حدیث کو اکثر محدثین نے محض باطل و موضوع کہا ہے،اگر صحیح بھی ہو تو یہ حضرت ابراہیم کی خصوصیت ہے ورنہ گذشتہ  نبیوں کے سارے بیٹے نبی نہیں ہوئے ہیں،نیز اس سے لازم یہ نہیں آتا کہ حضور خاتم النبیین نہ ہوں کیونکہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جناب ابراہیم زندہ نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ اگر وہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں لہذا وہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔(مرقات)غرضکہ یہ حدیث امام نووی ابن عبدالبر وغیرہم محدثین کے نزدیک موضوع ہے،بعض محدثین نے اسے مرفوعًا صحیح مانا اور مطلب وہ بتایا جو ابھی ہم نے عرض کیا۔(مرقات)
Flag Counter