مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت جابر رضی الله عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ مجھےپانچ نعمتیں وہ دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ دی گئیں ۱؎ میں ایک ماہ کے راستے سے رعب کے ذریعہ مدد کیا گیا ۲؎ اور میرے لیے ساری زمین مسجداور ذریعہ طہارت بنادی گئی ۳؎ کہ میری امت کے آدمی کوجس جگہ نماز آجاوے و ہ وہاں ہی پڑھ لے اور میرے لئے غنیمتیں حلال کردی گئیں مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں کی گئیں۴؎ اور مجھے بڑی شفاعت دی گئی ۵؎ اور نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتےتھے ۶؎ میں سارے انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ۷؎ (بخاری ومسلم)
شرح
۱؎ یہاں پانچ فرمانا حصر کے لیے نہیں بلکہ اس کے معنی ہیں کہ یہ پانچ خصوصی فضیلتیں وہ ہیں جو میرے سواءکسی نبی کو نہ دی گئیں تو آئندہ کسی ولی کو ملنے کا احتمال ہی نہیں،ہزارہا خصوصیات ہیں جو حضور انور ہی کو ملیں کسی اور کو نہ ملیں۔لہذا یہ حدیث دوسری ان احادیث کے خلاف نہیں جن میں اورخصوصیات کا بھی ذکر ہے۔ ۲؎ یعنی جو دشمن مجھ سے جنگ کرنے آئیں ابھی وہ ایک ماہ کے راستہ پر مجھ سے دور ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں میری ہیبت چھا جاتی ہے اگرچہ وہ جنگ کریں مگر مرعوب ہوکر،یہ معجزہ کسی نبی کو نہیں دیا گیا۔اب بھی حضور کے روضۂ اطہر پر پہلی حاضری کے وقت زائر کے دل میں حضور کی ہیبت بہت ہی ہوتی ہے بعد میں حضور سے انس و محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ ۳؎ یعنی دوسرے نبیوں کے دینوں میں نماز صرف ان کے عبادت خانوں میں ہوتی تھی گرجوں وغیرہ میں میری امت تمام روئے زمین پر جہاں چاہے نماز پڑھ سکتی ہے،ہاں بعض جگہ نماز جائز نہیں وہ کسی عارضہ سے ہے جیسے قبرستان، حمام،مذبح وغیرہ،نیز کسی دین میں تیمم نہ تھا یہ صرف میرے دین میں ہے غسل اور بے وضوئی دونوں کا تیمم زمین پر ہوسکتا ہے یہ ہماری خصوصیات میں سے ہے۔ ۴؎ چنانچہ پچھلے دینوں میں جہاد تھے اور ان جہادوں میں مال غنیمت بھی حاصل کیا جاتا تھا مگر یہ مال غنیمت کسی پہاڑ پر رکھ دیا جاتا تھا اگر اس میں کچھ غبن نہ ہوتا تو غیبی آگ آتی اسے کھا جاتی،اگر ذرہ بھر بھی غبن ہوتا تو آگ نہ آتی، ہمارے دین میں غنیمت کا مال مجاہدین میں تقسیم ہوتا ہے،یوں ہی قربانی کا گوشت دوسرے دینوں میں کھایا نہیں جاتا تھا بلکہ پہاڑ پر رکھ دیا جاتا تھا جسے آگ کھا جاتی تھی اسلام میں قربانی کرنے والا بھی اور دوسرے بھی کھا سکتے ہیں۔ ۵؎ یعنی شفاعت کبریٰ جسے شفاعت عامہ کہتے ہیں وہ صرف حضور ہی کریں گے،شفاعت صغریٰ دوسرے نبی،اولیاء الله ، اوررمضان،قرآن وغیرہ بھی کریں گے،یہاں شفاعت کبریٰ مراد ہے۔ ۶؎ اپنی قوم سے مراد وہ خاص قوم ہے جو ان کی امت دعوت ہوتی تھی جس پر واجب ہوتا تھا کہ ان نبی پر ایمان لائے خواہ اپنے خاندان کے لوگ ہوں یا اپنے شہر کے یا دوسرے لوگ۔لہذا اس فرمان عالی پر یہ اعتراض نہیں کہ ابراہیم ولوط علیہما السلام ملک شام و فلسطین کے نبی تھے یہ لوگ ان حضرات کے خاندان کے تھے نہ وطن کے۔ ۷؎ علماءکرام کے نزدیک اس فرمان عالی کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی نبوت کے ظہور سے لے کر قیامت تک لوگ آپ کے امتی ہیں خواہ کسی قوم کے ہوں کسی جگہ کے ہوں کسی وقت میں ہوں۔صوفیاءکرام کے نزدیک از آدم علیہ السلام تا روز قیامت سب حضور کے امتی ہیں حتی کہ گذشتہ انبیاءکرام بھی،ہاں وہ قومیں بالواسطہ امتی تھیں ہم لوگ بلاواسطہ اس لیے سارے نبیوں سے حضور پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا"وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثٰقَ النَّبِیّٖنَ"اور نبیوں نے حضور کے پیچھے معراج میں محمدی نماز پڑھی۔یہاں تو یہ ہے کہ ہم سارے انسانوں کی طرف بھیجے گئے،آگے آرہا ہے کہ ساری مخلوق کی طرف بھیجے گئے جس کا رب اللہ ہے اس کے نبی حضور ہیں،الله تعالٰی رب العلمین ہے حضور رحمۃ للعالمین۔