مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا جوتا شریف درست کرلیتے تھے اپنے کپڑے سی لیتے تھے ۱؎ اور اپنے گھر میں ایسے ہی کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھر میں کام کرتا ہے،فرماتی ہیں آپ بشروں میں سے۲؎ ایک کی سی زندگی رکھتے تھے اپنے کپڑوں کی جوئیں دیکھتے تھے۳؎ اپنی بکری دوھ لیتے تھے اپنے کام خود کرتے تھے۴؎ (ترمذی)
شرح
۱؎ اس عمل شریف سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ پیوند والا کپڑا اور پیوند لگا ہوا جوتا پہننے میں عار نہ کرے یہ سنت رسول اللہ ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔دوسرے یہ کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں بھی شرم نہ کرے دوسرے کا حاجت مند نہ رہے مگر یہ دونوں عمل بخل کی بناء پر نہ ہوں بلکہ تواضع انکسار کے لیے ہوں لہذا یہ حدیث اس فرمان عالی کے خلاف نہیں کہ جب نیا کپڑا یا نیا جوتا پاؤ تو پرانا خیرا ت کردو کہ وہاں سخاوت کی تعلیم ہے اور یہاں تواضع کی۔ اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فطری طور پر ہر کام جانتے ہیں،حضور سلطنت کرنا، مقدمہ میں فیصلہ کرنا بھی جانتے ہیں اور کپڑے سینا،جوتہ میں پیوند لگانے سے بھی واقف ہیں یہ سب کچھ کسی سے سیکھا نہیں رب کے ہاں سے سیکھے سکھائے تشریف لائے،حضور انور نے کوئی کمال کسی مخلوق سے نہیں سیکھا۔ ۲؎ یعنی حضور کی زندگی پاک شاہانہ پرتکلف نہ تھی عام بشر کی طرح سادہ تھی۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضور انور میں سواء بشریت کے اور کوئی کمال نہ تھا اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ حضرات صحابہ کرام حضور کو بشر کہہ کر پکارتے ہیں۔بشر کہنا تو بڑی بات ہے حضرت عباس حضور کو بھتیجا نہیں کہتے،حضرت علی رضی اللہ عنہ بھائی نہیں کہتے،حضرت عائشہ خاوند کہہ کر نہیں پکارتیں سب یہی کہتے ہیں قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم۔لہذا یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہیں کہ"لَا تَجْعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمۡ بَعْضًا"۔ ۳؎ خیال رہے کہ حضور انور کے سر یا کپڑوں میں جوئیں پڑتی نہ تھیں ہاں دوسرے کی چڑھ جاتی تھیں وہ آپ اپنے کپڑوں سے صاف کرتے تھے اور ام حرام آپ کے سر شریف سے نکالتی تھیں،ہاں مکھی جسم پاک پر نہیں بیٹھتی تھی مچھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا نہ دیتے تھے۔(اشعہ)بعض شارحین نے فرمایا کہ کبھی ایک دو جوں پڑجاتی جوں پڑنا صفائی خون کی علامت ہے اس لیے جذامی کے سریا کپڑوں میں جوں نہیں ٖپڑتی مگر فقیر کے نزدیک پہلی بات قوی ہے۔ ۴؎ یعنی اپنے کام خود آپ بھی کرلیتے تھے لہذا یہ حدیث اس کے خلاف نہیں کہ حضرت انس اور دوسرے صحابہ حضور انور کی خدمت کرتے تھے۔