Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
76 - 952
حدیث نمبر 76
روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ نہیں اختیار دیا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں کبھی بھی مگر حضور نے ان میں سے آسان کو اختیار کیا ۱؎ جب تک کہ گناہ نہ ہوتا لیکن اگر گناہ ہوتا تو سب لوگوں سے زیادہ دور ہوتے ۲؎  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی چیز میں بدلہ نہ لیا مگر یہ کہ اللہ تعالٰی کے دین کی حرمت توڑی جاتی تو اللہ کے لیے اس کا بدلہ ضرور لیتے۳؎ (مسلم، بخاری)
شرح
۱؎  ظاہر یہ ہے کہ اختیار دینے والا اللہ تعالٰی ہے یعنی اگر اللہ تعالٰی حضور انور کو دو کاموں کا اختیار دیتا تو آپ آسان کام اختیار فرماتے تاکہ امت کو تکلیف نہ ہو۔بعض نے کہا کہ اختیار دینے والے یا کفار ہوتے یا مسلمان کہ اگر یہ لوگ دو باتیں حضور پر پیش کرتے تو آپ آسان اختیار فرماتے جیسے بدر کے قیدیوں کے متعلق قتل کا مشورہ دیا گیا اور فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا بھی،تو حضور انور نے حضور ابوبکر صدیق کا مشورہ فدیہ قبول فرمایا یہ ہے آسان کو اختیارفرمانا،پھر رب تعالٰی نے اس فدیہ لے کر چھوڑ نے کو قانون بنادیا کہ فرمایا:"فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً"۔اس کی مفصل بحث ہماری تفسیر میں دیکھو۔

۲؎ اگر اختیار دینے والا رب تعالٰی ہے تو گناہ سے مراد ہے کسی جائز کام کا گناہ کا ذریعہ بننا ایسے کام سے حضور دور رہتے جیسے رب نے حضور کو اختیار دیا کہ یا آپ شاہانہ زندگی اختیار فرمائیں خزانے آپ کے ساتھ رہیں یا آپ سادہ زندگی قبول فرماویں،چونکہ شاہانہ زندگی دنیا میں مشغولیت نیکیوں میں کمی کا ذریعہ بن سکتی تھی اس لیے حضور انور نے سادہ زندگی اختیار فرمائی۔شعر

عجز اللہ رہےتمہاراکہ شہہ کل ہوکر		زندگی تم نے غریبوں میں گزاری ساری

۳؎ یعنی حضور انور نے اپنی ذات کے لیے کسی موذی سے بدلہ نہ لیا،جس سے بدلہ لیا دین کی حرمت کے لیے،حضور نے اپنے جن دشمنوں کو قتل کرایا ہے یا قتل کیا ہے وہ بھی درحقیقت دین ہی کے دشمن تھے جیسے عقبہ بن ابی معیط،عبداللہ ابن ختل کو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرایا کہ وہ درحقیقت دین کے دشمن تھے۔بعض شارحین نے فرمایا کہ یہاں مالی جرم کا عوض مراد ہے آبرو کے دشمنوں سے بدلہ لیا ہے۔ (مرقات،اشعہ)مگر پہلی بات قوی ہے۔حضور نے ہندہ وحشی عکرمہ کو معافی دے دی کہ وہ اپنے دشمن تھے مگر فاطمہ مخزومیہ کا ہاتھ کٹوا دیا کہ اس نے چوری کی تھی قانون اسلامی کا جرم کیا تھا،اس موقع پر کسی کی سفارش قبول نہ فرمائی بلکہ سفارش پر ناراضی فرمائی۔
Flag Counter