مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے انہیں سے کہ ایک عورت کی عقل میں کچھ فتور تھا ۱؎ اس نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ سے کچھ کام ہے ۲؎ تو فرمایا اے فلاں کی ماں تو سوچ لے کہ کون سی گلی پسند کرتی ہے کہ میں وہاں تیرا کام کروں۳؎ تو کسی راستہ میں حضور اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے حتی کہ وہ اپنے کام(عرض و معروض)سے فارغ ہوگئی ۴؎(مسلم)
شرح
۱؎ یعنی وہ بی بی دیوانی تھی یا مجذوبہ اس کا نام معلوم نہ ہوسکا۔ ۲؎ ظاہر یہ ہے کہ حضور انور راستے سے جارہے تھے کہ یہ مجذوبہ بی بی صاحبہ حاضر ہوکر عرض کرنے لگیں وہ خود حضور انور کے دولت خانہ میں نہ آئی تھی۔(اشعۃ اللمعات) ۳؎ یعنی اگر تو نے مجھ سے کوئی بات تنہائی میں عرض کرنی ہے تو کوئی گلی تجویز کرکے مجھے بتا جہاں میں اکیلے کھڑے ہوکر صحابہ کرام سے جدا ہو کر تیری بات سنوں اور تیرا کام کروں۔ ۴؎ اس سے معلوم ہوا کہ گلی کوچہ یا گزر گاہ عام میں کسی عورت کے ساتھ تنہائی خلوت نہیں نہ اس پر خلوت کے احکام جاری ہوں۔(مرقات)اتنی عبارت لکھ کر میں دوپہری میں آرام کے لیے سو گیا،خواب میں اس گنہگار کو اس کی مکمل شرح بتائی گئی وہ یہ ہے کہ خلوت دو قسم کی ہے: خلوت لغویہ،خلوت شرعیہ۔خلوت لغویہ یہ ہے کلام سننے سنانے میں تنہائی ہو کہ کوئی ان کی بات نہ سن سکے اگرچہ دیکھنے دکھانے میں جلوت ہو کہ لوگ دونوں کو دیکھ رہے ہو۔کہ خلوت شرعیہ یہ ہے کہ سننے دیکھنے دونوں کے لحاظ سے خلوت تنہائی ہو کہ نہ کوئی دیکھے نہ کوئی کلام سنے۔خلوت شرعیہ نامحرم کے ساتھ حرام ہے مگر خلوت لغویہ بوقت ضرورت حلال ہے۔یہاں خلوت لغویہ تھی خلوت شرعیہ نہ تھی کہ یہاں گلی میں وہ دیوانی حضور کو الگ لیے کھڑی ہے،راہ گیر یہ ماجرا دیکھ رہے ہیں مگر اس کی عرض و معروض حضور انور کا جواب نہیں سن رہے ہیں۔مسجد کے گوشہ میں گلی کوچہ میں دن کے وقت یہی خلوت ہوسکتی ہے لہذا یہ حدیث اس فرمان عالی کے خلاف نہیں کہ کوئی شخص اجنبی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے نہ اس کے خلاف ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دیکھ لو یہ میری زوجہ ہیں(الحدیث)کہ وہاں خلوت شرعیہ کا ذکر اور یہاں خلوت لغویہ واقعہ ہوئی۔ الحمدلله! فقیر کو یہ خواب میں آج بارہ ذی الحج ۱۳۸۳ھ مطابق بارہ مارچ ۱۹۶۸ء سہ شنبہ کو بوقت دوپہر یہ رہبری فرمائی گئی وہ ہی اس گنہگار نے سپرد قلم کردی،یہ میرے آقا کی کرم نوازی ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔