۱؎ یعنی اتنی زیادہ بکریاں مانگیں جن سے دو پہاڑوں کے درمیان کا سارا جنگل بھرا ہوا تھا یہ سب بکریاں حضور انور کی اپنی تھیں کہ غزوہ حنین میں مال غنیمت کے خمس میں اتنی بکریاں آپ کو ملی تھیں۔
۲؎ یعنی بغیر دغدغہ بے تأمل یہ سب اسے عطا فرمادیں۔بعض روایات میں ہے کہ سائل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بکریاں دیکھ کر عرض کیا تھا یارسول اللہ حضور تو بڑے مالدار ہوگئے فرمایا کیسے،اس نے عرض کیا کہ اتنی زیادہ بکریاں آپ کی اکیلے کی مِلک ہیں،فرمایا جا سب تجھے عطا فرمادیں لے جا،وہ حیرت سے حضور کا منہ تکتا رہ گیا۔
۳؎ خیال رہے کہ داتا سخی ہے مگر اس کی دین کے دروازے مختلف ہیں کسی کو جمال دکھا کر ایمان بخش دیا،کسی کو جود و نوال یعنی سخاوت دکھا کر اپنا متوالا بنالیا،کسی کو میدان جہاد میں جلال الٰہی دکھاکر مؤمن بنا دیا ہم جیسے دور افتادہ غلاموں کو اپنا نام سناکر ایمان دے دیا۔ان کا نام،ان کے کام،ان کی صورت،ان کی سیرت سب ہی ایمان بخشنے کا ذریعہ ہیں اس بدوی نے اسی عطا کو حضور کی نبوت کی دلیل بنایا مع اپنی قوم کے مسلمان ہوگیا وہ بکریاں کیا ملیں کہ انہیں ایمان مل گیا۔خیال رہے کہ کسی سے مانگنا عیب ہے اس سے منع فرمایا گیا ہے مگر اللہ رسول سے مانگنا ہم سب کے لیے باعث فخر ہے۔