Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
63 - 952
حدیث نمبر 63
روایت ہے انہیں سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں بہت حسین اور سب سے زیادہ سخی سب سے زیادہ بہادر تھے ۱؎ ایک رات مدینہ والے گھبرا گئے تو لوگ آواز کی طرف دوڑے ۲؎ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف سے روانہ ہوئے۳؎  آپ لوگوں سے پہلے آواز کی طرف دوڑے اور کہتے جاتے تھے مت گھبراؤ۴؎  اور آپ ابو طلحہ کے ننگے گھوڑے پر تھے جس پر زین نہ تھی ۵؎ اور آپ کے گلے میں تلوارتھی پھر فرمایا کہ ہم نے اسے دریا پایا ۶؎ (مسلم، بخاری)
شرح
۱؎  بدصورتی،بدخلقی،بخیلی،بزدلی انسانی عیب ہیں اللہ تعالٰی ان سے اپنے نبیوں کو محفوظ رکھتا ہے۔حضور انور چونکہ تمام نبیوں کے سردار سیّد ہیں اس لیے حضور ان عیوب سے بہت دور تھے۔حضور حسین تھے تو ایسے کہ اللہ کے محبوب ہوئے،سخی ایسے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت سے آج بھی بلکہ قیامت تک لوگ پرورش پاتے رہیں گے علماء، صوفیاء،نعت خواں،مشائخ اس باڑے سے پل رہے ہیں،ان کا جود و کرم و سخاوت کوئی مجھ جیسے کمینے سے پوچھے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی کرم نوازی مجھ پر اتنی کہ بیان نہیں کرسکتا۔شعر

ہم نے خطامیں نہ کی تم نے عطا میں نہ کی 	کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود

مرزا قادیانی ایسا بزدل تھا کہ ڈر کے مارے حج کو نہ گیا،والی افغانستان کو اپنی نبوت کی دعوت دی انہوں نے جواب دیا ایں جا بیا یہاں آکر تبلیغ کرو مرزا نہ گیا،سچے نبی کبھی بزدل نہیں ہوتے۔اسی شجاعت کی بنا پر رب نے فرمایا:"فَقٰتِلْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ  لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ"،"حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیۡنَ عَلَی الْقِتَالِ"۔اے محبوب تم اکیلے ہی کفار سے جہاد کرو آپ ہی کو جہاد کا حکم دیا جاتا ہے۔مؤمنوں کو بھی رغبت جہاد دو ا س لیے حضور اکثر خچر پر سوار ہوتے تھے کہ خچر جنگ پر پیچھے نہیں لوٹتا۔(مرقات)

۲؎ یعنی مدینہ طیبہ کے کسی محلہ میں رات کو اچانک شور مچ گیا کہ دوڑو ہماری مدد کو دشمن یا چور ہم پر آن پڑے،کبھی ایسا ہوجاتا ہے سارے محلہ والے چیخ رہے تھے۔

۳؎  اس جملہ کے دو معنی کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ ھم کا مرجع وہ ہی چیخنے شور مچانے والے لوگ ہیں تو مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگ تو جماعت اور ٹولیاں بن کر شور کی طرف دوڑے کہ ایسے موقع پر امداد کرنے والے اکیلے نہیں جایا کرتے دشمن یا چوروں کا خطرہ ہوتا ہے مگر حضور ان سب لوگوں سے پہلے اکیلے ہی بیدھڑک روانہ ہوئے اور ان سب سے پہلے پہنچے یہ ہے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری و جرأت ۔دوسرے یہ کہ ھم کا مرجع یہ مدد کے لیے جانے والے لوگ ہیں اور استقبل کے معنی ہیں حضور انور واپس آتے ہوئے ان جانے والوں کو ملے آپ وہاں ہوکر سب تحقیقات کرکے ان ڈرنے والوں کو تسلی وتشفی دے کر واپس آرہے تھے ہم جارہے تھے حضور آرہے تھے،یہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری۔(مرقات)

۴؎  اس عبارت کے معنی بھی دو ہیں: ایک یہ کہ آپ جاتے ہوئے ان ڈرنے والوں کو تسلی دیتے ہوئے آواز دیتے جارہے تھے کہ مت گھبراؤ میں آگیا ہوں مت ڈرو میں تمہاری مدد کو آگیا ہوں۔اس صورت میں لم بمعنی لا ہے اور یہ عبارت نہی کا صیغہ ہے۔دوسرے یہ کہ لم تراعوا میں خطاب ہے ان مددگاروں سے جو ادھر جارہے تھے اور مطلب یہ ہے کہ تم لوگ بھی ڈرو نہیں ہم وہاں ہو آئے ہیں وہاں کوئی خطرناک چیز نہیں ہے یوں ہی ان لوگوں کو دھوکا ہوگیا تھا۔لم تراعوا بنا ہے روع سے بمعنی گھبراہٹ اور ڈر یا یہ مضارع مجہول صیغہ جمع مذکر حاضر ہے یعنی تم لوگ ڈرائے نہ گئے ہو بلکہ یوں ہی وہم میں مبتلا ہوگئے ہو بعض روایات میں لن تراعوا ہے۔

۵؎  ابو طلحہ کے اس گھوڑے کا نام مندوب تھا بمعنی مطلوب آپ نے جلدی میں اس پر کاٹھی لگام وغیرہ کچھ نہ لگائی یوں ہی بغیر کاٹھی بغیر لگام سوار ہوکر روانہ ہوگئے۔(مرقات)

۶؎  اہلِ عرب تیز رو اور سبک رفتار گھوڑے کو دریا سے تشبیہ دیتے ہیں وہ ہی محاورہ یہاں استعمال ہوا ہے یعنی جیسے دریا کا سوار نہایت آرام سے بغیر جھٹکے سفرکرتا ہے ایسے ہی اس گھوڑے کا حال ہے کہ مجھے نہایت تیز اور آرام سے لے گیا۔یہ گھوڑا بہت سی سست رفتار اور سخت اڑیل تھا جناب ابوطلحہ اس گھوڑے سے تنگ تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سواری کے بعد یہ دونوں عیب جاتے رہے،یہ حضور انور کا ایک معجزہ نہیں بلکہ چند معجزے ہوئے،گھوڑے کی پشت پر سوار ہوگئے تو حقیقت بدل دی جس انسان پر ہاتھ رکھ دیں نظر کرم کردیں اس کی بھی قسمت کھل جاوے۔شعر

السلام اے دو جہاں کے بادشاہ 		 مجھ غریب و خستہ پربھی اک نگاہ	(غلام امام شہید)
Flag Counter