Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
60 - 952
باب فی اخلاقہ و شمائلہ صلی اللہ علیہ وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلا ق و عادات کا بیان  ۱؎
الفصل الاول

پہلی فصل
۱؎   اب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری صورت کا بیان تھا،اب حضور کی باطنی سیرت کا ذکر شریف ہے۔اخلاق جمع خلق کی ہے بمعنی عادت اور شمائل جمع ہے شمال کی میم کے فتح سے بمعنی طبیعت و جبلت۔اخلاق عام ہے اور شمائل خاص،انسان کی جو عادت دنیا میں آکر پڑے وہ بھی خلق ہے مگر شمال پیدائشی عادت کو ہی کہا جاتا ہے۔حضور کے اخلاق کو رب تعالٰی نے عظیم فرمایا کہ ارشاد ہوا"اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ"کوئی شخص بھی کما حقہٗ حضور کے اخلاق کا بیان نہیں کرسکتا۔جب ہم دنیا کی نعمتیں نہیں گن سکتے جو کہ بہت تھوڑی ہیں"قُلْ مَتٰعُ الدُّنْیَا قَلِیۡلٌ"تو جسے رب عظیم کہے اسے کیسے گن سکتے ہیں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں۔شعر

تیری خلق کو رب نے جمیل کیا تیرے خلق کو رب نے عظیم کہا

کوئی  تجھ  سا  ہوا  ہے  نہ  ہوگا  شہا  تیری  خالق  حسن  ادا  کی قسم
حدیث نمبر 60
روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی ۱؎ کبھی مجھ سے تف نہ فرمایا اور نہ یہ کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ یہ کہ کیوں نہ کیا ۲؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ حضور انور کے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے پر حضرت انس رضی اللہ عنہ کی عمر آٹھ سال تھی،ان کے والدین اس وقت حضور انور کی خدمت میں انہیں لائے اور بولے کہ ہم نے انہیں آپ کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔وفات شریف        ۱۰؁  ہجری میں ہوئی،وفات شریف تک حضور انور کی خدمت میں رہے بعد وفات مدینہ سے باہر آگئے،مقام موصل میں آپ کامزار ہے۔

۲؎ یعنی میں کم عمر بھی تھا اور کم سمجھ بھی،مجھ سے قصور بھی ہوتے تھے اور کبھی کچھ نقصان بھی ہوجاتا تھا جیسے کوئی چیز ٹوٹ جانا وغیرہ مگر اس سراپا رحم و کرم نے مجھے کبھی جھڑکا نہیں اور ملامت کے طریقہ پر یہ نہ فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کردیا یہ کیوں چھوڑ دیا۔اف کا ترجمہ اردو میں ہے افوہ یہ سرزنش اور ملامت کے وقت بولا جاتا ہے یہاں دنیاوی کاموں میں اف نہ فرمانا مراد ہے شرعی غلطی پر پکڑ کرنا تو اصلاح ہے۔(مرقات و  اشعہ)
Flag Counter