۱؎ یعنی جو لوگ اعمال سے جنت کے قابل نہ ہوں گے ان کی شفاعت کرکے انہیں جنت میں داخل کروں گا۔فی الجنۃ سے پہلے دخولہم پوشیدہ ہے یعنی جنت کے داخلہ کے بارے میں ورنہ جنت میں پہنچنے کے بعد شفاعت کیسی۔(از مرقات)یا یہ مطلب ہے کہ جنت کے قابل جو لوگ ہوں گے اور ان کی شفاعت فرماؤں گا۔ترقی درجات کے متعلق کہ نیچے والوں کو اونچا کردیا جاوے تب درجات پوشیدہ ہے فی درجات الجنۃ۔
۲؎ اس فرمان عالی کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ جتنے زیادہ لوگوں نے مجھ پر ایمان قبول کیا اتنے لوگ کسی اور نبی پر ایمان نہیں لائے یہ بالکل ظاہر ہے کیونکہ دوسرے نبی کسی خاص قوم کے نبی ہوتے تھے حضور انور سارے جہان کے نبی ہیں،نیز اور نبیوں کا زمانہ نبوت محدود تھا حضور کی نبوت تا قیامت ہے۔دوسرے یہ کہ جس قسم کی تصدیق میری کی گئی اس درجہ کی تصدیق کسی نبی کی نہیں کی گئی،میری امت مجھ پر دل وجان سے فدا ہے اور ہوگی۔یہ عشق سوزو گدازکسی اور امت کو نہیں ملا۔(اشعۃ اللمعات)
۳؎ یہ عبارت جملہ اول کے پہلے معنی کی تائید کرتی ہے۔یعنی میری امت دوسرے نبیوں کی امت سے زیادہ ہے۔نوح علیہ السلام نے ساڑھے نوسو سال تبلیغ فرمائی مگر صرف اسّی آدمی ایمان لائے آٹھ آدمی اپنے گھر کے بہتّر آدمی دوسرے،حضور نے تئیس سال تبلیغ فرمائی دیکھ لو آج تک کیا حال ہے،نوح علیہ السلام کے بارے میں رب فرماتاہے: "وَمَاۤ اٰمَنَ مَعَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلٌ"۔