Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
58 - 952
حدیث نمبر 58
روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ ایک یہودی لڑکا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ۱؎ وہ بیمار ہوگیا تو اس کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پرسی کو تشریف لائے۲؎ اور اس کے باپ کو اس کے سرہانے توریت پڑھتے پایا۳؎ تو اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے یہودی میں تجھے اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پر توریت اتاری۴؎ کیا تو میرے اوصاف میری نعت، میری ہجرت توریت میں پاتا ہے ۵؎ کہا نہیں تو جوان بولا ہاں ۶؎ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم ہم آپ کی نعت آپ کی صفات آپ کی ہجرت توریت میں پاتے ہیں۷؎ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواءکوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ۸؎ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ اس یہودی کو اس جوان کے پاس سے اٹھا دو اور تم اپنے بھائی کا انتظام کرو ۹؎(بیہقی دلائل النبوۃ)
شرح
۱؎ عربی میں غلام نابالغ مگر سمجھدار بچے کو کہتے ہیں،بہت چھوٹے بچے کو صبی کہا جاتا ہے،شیر خوار کو رضیع اور جس کا دودھ چھوڑا دیا جاوے اسے فطیم کہا جاتا ہے۔یہ بچہ یہودی کا تھا،حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا تھا،آپ کی ہر طرح کی خدمت کرتا تھا۔معلوم ہوا کہ کافر بچوں سے خدمت لینا جائز ہے کبھی یہ خدمت و صحبت ہی ان کی ہدایت کا ذریعہ بن جاتی ہے جیساکہ یہاں ہوا۔اس بچہ اور اس کے باپ کا نام معلوم نہ ہوسکا۔

۲؎ ہوا یہ کہ وہ بچہ حضور عالم کی خدمت میں حاضر نہ ہوا،لوگوں سے وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ایسا بیمار ہے کہ چل پھر نہیں سکتا تب مع صحابہ کرام خود حضور انور اس کی بیمار پرسی کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے۔معلوم ہوا کہ کفار کی بیمار پرسی جائز ہے خصوصًا جب کہ وہ کافر تندرستی میں ہمارے پاس آتا جاتا ہو۔

۳؎ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم لوگ اپنے مرنے والے کے پاس سورۂ یٰسین پڑھتے ہیں ایسے ہی یہوداپنے مرنے والوں کے پاس توریت پڑھاکرتے تھے وہ بچہ غالبًا قریب الموت تھا۔

۴؎  اس سے دو مسئلہ معلوم ہوئے:  ایک یہ کہ جیسے خود قسم کھانا جائز ہے ایسے ہی دوسرے کو قسم دینا بھی جائز ہے۔ دوسرے یہ کہ جب کسی کو قسم دی جائے یا اس سے قسم لی جاوے تو قسم میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جس سے اس کے دل پر رعب چھا جاوے۔یہود کے نزدیک توریت شریف اور موسیٰ علیہ ا لسلام بڑے عزت و عظمت والے ہیں اور توریت کا نزول ان کے ہاں اللہ کی بڑی نعمت ہے ان وجوہ سے حضور انور نے ان الفاظ سے اسے قسم دی۔

۵؎ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سوال اس سے اقرار کرانے کے لیے ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ حضور انور توریت بلکہ ساری کتب الہیہ سے واقف ہیں۔توریت و انجیل میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے نام، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے کام،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حالات طیبہ حتی کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سب کچھ موجود ہے۔

۶؎  اس یہودی نے دیدہ دانستہ جھوٹ بولا اس نے توریت میں یہ تمام کچھ پڑھا تھا،وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا نام،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سب کچھ توریت میں پڑھ چکا تھا۔

۷؎ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکا اگرچہ تھا تو کم عمر مگر توریت شریف سے واقف تھا اور اس کے دل میں حضور انور کی محبت تھی،اسے یہ نعمت حضور انور کی صحبت پاک سے نصیب ہوئی تھی۔

۸؎ حضور انور کے سامنے مسلمان ہوگیا کوئی اسلام و ایمان میں آتا ہے مگر اس شخص کے پاس ایمان وا سلام آیا کیونکہ جس ذات کریمہ پر ایمان لایا جاتا ہے جن کے نام سے انسان مسلمان بنتا ہے وہ خود اس کے گھر تشریف لے گئے یہ اثر صحبت پاک کا تھا۔

۹؎  فرمایا یعنی اس کی تیمار داری کرو،جب یہ مرجاوے تو اس کے کفن و دفن،نماز جنازہ کا انتظام کرو۔اب اسے یہ یہودی باپ ہاتھ نہ لگائے۔اس فرمان عالی سے چند مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ نابالغ سمجھ دار بچے کا ایمان معتبر ہے۔دوسرے یہ کہ مرتے وقت کا ایمان قبول ہے جب کہ غررہ غررہ کی حالت سے پہلے ہو۔تیسرے یہ کہ اسلامی رشتہ جانی رشتوں سے قوی تر ہے کہ مؤمن کا کفن دفن اجنبی مسلمان تو کریں گے مگر اس کا باپ دادا کافر نہ کرے گا۔چوتھے یہ کہ اسلام میں نے نئے پرانے مسلمان برابر ہیں۔
Flag Counter