۱؎ آپ عمار ابن یاسر تو صحابی ہیں مگر ان کے بیٹے محمد اورپوتے عبیدہ دونوں تابعی ہیں،عبیدہ بہت مشہور تابعی ہیں،بڑے عالم بڑے عامل متقی تھے،بہت صحابہ رضی اللہ عنھم سے ان کی ملاقات ہے،ان سے عبدالرحمن ابن اسحاق جیسے جلیل القدر تابعی نے احادیث روایت کیں۔
۲؎ اس سے معلوم ہوا کہ اہل علم کے پاس جانا ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال طیبہ طاہرہ سننا بلکہ فرمائش کرکے ان سے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف سننا بزرگان دین کی سنت ہے۔دیکھو یہ تابعی ایک صحابیہ بی بی کے پاس جاتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات آپ کا حلیہ شریف آپ کی نعت سننے کے لیے مگر یہ سننا سنانا پردہ میں سے ہوتا تھا،اجنبی عورت مردوں کو خوش الحانی سے نعت نہ سنائے بلکہ جو عورت قاریہ ہو وہ بھی اپنی قرأت عورتوں کو سنائے مردوں کو نہ سنائے کہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے اسی لیے عورت مردوں کی امامت نہیں کرسکتی کہ امام کو قرأت بلند آواز سے کرنی پڑتی ہے۔
۳؎ یعنی تم کو حضور انور کے چہرہ اطہر میں سورج کی سی تجلی معلوم ہوتی چہرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا چمکتا دمکتا تھا۔ حضور انور کے چہرہ کو بعض صحابہ چاند جیسا کہتے ہیں،بعض سورج جیسا یا تو یہ دونوں کلام صرف سمجھانے کے لیے ہیں یا جب حضور انور خوشی میں ہوتے تو انوار اور زیادہ ہوجاتے تھے،اس وقت کی چمک کو سورج سے تعبیر کیا گیا ہے عام حالات میں چاند جیسا چہرہ ہوتا تھا صلی اللہ علیہ وسلم۔