Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
47 - 952
حدیث نمبر 47
روایت ہے حضرت ام سلیم سے ۱؎ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لاتے تھے تو ان کے پاس قیلولہ کرتے تھے۲؎ وہ حضور کے لیے چمڑے کا بستر بچھادیتی تھیں۳؎ حضور اس پر آرام کرتے تھے حضور کو پسینہ بہت آتا تھا۴؎ تو وہ حضور کا پسینہ جمع کرلیتی تھیں ۵؎ اسے خوشبو میں ڈال لیتی تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام سلیم یہ کیا ہے بولیں حضور آپ کا پسینہ ہے جسے ہم اپنی خوشبو میں ڈال لیتے ہیں یہ بہترین خوشبو ہے ۶؎ اور ایک روایت میں ہے کہ بولیں یارسول اللہ ہم اس کی برکت کی اپنے بچوں کے لیے امیدکرتے ہیں ۷؎ فرمایا تم ٹھیک کرتی ہو ۸؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ آپ کے نام میں بہت اختلاف ہے،کنیت ام سلیم بنت ملحان ہے،آپ پہلے مالک ابن نضر کے نکاح میں تھیں ان سے حضرت انس ابن مالک پیدا ہوئے،مالک ابن نضر مشرک مارے گئے تو ابوطلحہ نے آپ کو اپنے نکاح کا پیغام دیا آپ نے فرمایا کہ میرا مہر یہ ہوگا کہ تم مسلمان ہوجاؤ اس کے سواء میں اور مہر نہیں چاہتی۔چنانچہ ابو طلحہ مسلمان ہوئے اور آپ سے نکاح کیا،بے شمار فضائل و شمائل والی بی بی ہیں۔

۲؎ خیال رہے کہ ام سلیم اور آپ کی بہن ام حرام دونوں ملحان کی صاحبزادیاں ہیں۔بعض مورخین نے فرمایا کہ یہ دونوں بیبیاں حضور انور کی رضاعی خالہ تھیں اس لیے آپ سے پردہ نہ کرتی تھیں اور آپ ان کے ہاں آرام فرماتے تھے مگر یہ درست نہیں کیونکہ یہ دونوں بیبیاں مدینہ کے انصار بنی نجار سے ہیں،حضور انور کبھی شیرخوارگی میں مدینہ نہ گئے لہذا حق یہ ہے کہ یہ دونوں بیبیاں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کی رضاعی خالہ تھیں کیونکہ عبدالمطلب نے مدینہ منورہ میں بنی نجار میں ایک بی بی سے نکاح کیا تھا وہاں یعنی مدینہ پاک میں ہی حضرت عبداللہ پیدا ہوئے،وہاں ہی ان کی شیر خوارگی کا زمانہ گزرا اور بنی نجار میں ہی پلے بڑھے،ام حرام اور ام سلیم کی بہن نے انہیں دودھ پلایا اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ یہ دونوں بی بیبیاں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی دادیاں پھوپھیاں ہیں لہذا آپ کا ان کے پاس جانا سونا بالکل درست ہے۔(مرقات)

۳؎  نطعا نون کے کسرہ اور ط کے فتحہ سے چمڑا کا بستر۔

۴؎ کیونکہ حضور انور بہت حیا والے تھے جس کو حیاءو شرم بہت ہوتی ہے اسے پسینہٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ بہت آتا ہے۔(مرقات)

۵؎  ظاہر یہ ہے کہ ام سلیم جسم شریف سے پسینہ پونچھ پونچھ کر اپنے عطر میں ملا لیتی تھی،انہیں جسم اطہر چھونا جائز تھا اسی رشتہ کی وجہ سے جو ہم نے عرض کیا اور ہوسکتا ہے کہ اس بستر سے یا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے کسٍٍی کپڑے سے نچوڑ لیتی ہوں۔

۶؎ پسینہ شریف کا خوشبو دار ہونا غیر اختیاری معجزہ تھا جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن یا داؤد علیہ السلام کی خوش آوازی۔حضرات انبیاء کرام کے معجزات تین قسم کے ہوتے ہیں: لازمی معجزات جیسے یہ مذکورہ معجزے،عارضی اختیاری معجزات جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا یا ید بیضا کہ جب پھینکا وہ سانپ بن گیا ،عارضی غیر اختیاری معجزات جیسے آیاتِ قرآنیہ کا نزول،یہ خوشبو دار پسینہ پہلی قسم کا معجزہ ہے۔

۶؎ یعنی بطور تبرک آپ کا پسینہ اپنے بچوں پر ملتے ہیں جس سے خوشبو بھی حاصل ہو برکت بھی کہ اس کی برکت سے ہمارے بچے آفات اور بلاؤں سے محفوظ رہیں۔(اشعۃ)معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات دافع بلا ہوتے ہیں،یوسف علیہ السلام کی قمیض نے حضرت یعقوب کی بینائی کی بلا دور کر دی۔

۸؎ اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے پسینہ،ان کے لباس،بال،سارے آثار سے برکت اور قربِ الٰہی حاصل کرنا مستحب ہے۔(مرقات)جب حضرت انس کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے وصیت کی کہ میری میت پر جو خوشبو ملی جاوے اس میں یہ پسینہ شریف شامل کیا جاوے۔(مرقات)حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند شریف اپنی صاحبزادی زینب کے کفن میں رکھوایا برکت کے لیے۔
Flag Counter