Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
41 - 952
حدیث نمبر 41
روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو بہت دراز قد تھے ۱؎ اور نہ بالکل پست قد۲؎ اور نہ خالص سفید رنگ تھے ۳؎ اور نہ گندمی رنگ نہ تو چھلے دار بالوں والے تھے اور نہ بالکل سیدھے بال والے۴؎ اللہ نے انہیں نبی بھیجا سرے پر چالیس سال کی عمر شریف کے ۵؎ مکہ میں دس سال رہے اور مدینہ میں دس سال ۶؎ اللہ نے آپ کو وفات دی ساٹھ سال کے کنارے پر۷؎ اس وقت آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہ تھے ۸؎ اور ایک روایت میں انس رضی اللہ عنہ حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ شریف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ قوم میں درمیانہ قد تھے نہ بہت دراز اور نہ پست قد ۹؎ چمکدار رنگت۱۰؎  اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال شریف آپ کے آدھے کانوں تک تھے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کے کانوں اور کندھوں کے درمیان تھے ۱۱؎ (مسلم،بخاری)اور بخاری کی روایت میں ہے کہ انس نے کہا کہ حضور بھاری سر۱۲؎  اور بھاری قدم والے تھے۱۳؎ میں نے آپ جیسا حسین نہ آپ کے بعد دیکھا نہ آپ سے پہلے۱۴؎ آپ کشادہ ہتھیلی تھے۱۵؎ بخاری کی دوسری روایت میں ہے کہ حضور بھاری قدم بھاری ہاتھوں والے تھے ۱۶؎
شرح
۱؎ بائن بنا ہے بون سے بمعنی دوری اسی سے ہے طلاق بائنہ،یہاں بائن سے مراد ہے بہت زیادتی جو حد اعتدال سے دور ہو یعنی حضور انور اتنے دراز قد نہ تھے کہ حد اعتدال سے دور ہوں۔

۲؎ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور انور مائل بہ درازی تھے کیونکہ طویل کے ساتھ بائن کی قید بیان ہوئی اور قصیر مطلق بغیر قید کے فرمایا۔

۳؎ بلکہ آپ کا رنگ شریف سفید مائل بہ سرخی تھا یا سرخی پیلا ہوا سفید جو کہ بہت ہی حسین ہوتا ہے۔

۴؎ یعنی حضور کے بال شریف نہ تو حبشہ والوں کی طرح بالکل چھلے دارمٹھے ہوئے تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ بال سیدھے کناروں پر خم دار تھے ایسے بال بہت حسین معلوم ہوتے ہیں۔

۵؎ سرے سے مراد آخری کنارہ ہے۔حضور انور کی نبوت کا ظہور چالیس سال کی عمر شریف میں ہوا جب آپ کا سنہ شریف پورے چالیس سال کا ہوچکا تھا۔

۶؎ تمام کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور انور کی نبوت کا ظہور چالیس سال کی عمر شریف میں ہوا،اس پر بھی سب متفق ہیں کہ بعد ہجرت مدینہ منورہ میں قیام دس سال رہا مگر اس میں اختلاف ہے کہ ظہور نبوت کے بعد ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں کتنا قیام رہا دس سال،تیرہ سال،پندرہ سال۔قوی یہ ہے کہ تیرہ سال قیام رہا لہذا عمر شریف کل تریسٹھ سال ہوئی ساٹھ یا پینسٹھ سال نہیں یہاں دس سال والی روایت ہے۔

۷؎ مرقات نے یہاں فرمایا کہ ساٹھ والی روایت میں دہائی لی گئی ہے تین جو کسر تھی وہ چھوڑ دی گئی اور پینسٹھ سال والی روایت میں ولادت اور وفات کے سال شامل کرلیے گئے ہیں ورنہ عمر شریف تریسٹھ سال ہے اور یہ دونوں روایات اس کے خلاف نہیں۔

۸؎ بعض روایات میں ہے کہ سر مبارک داڑھی شریف اور ریش بچی سب میں ملاکر بیس بال سفید تھے،بعض میں ہے کہ کل چودہ بال سفید تھے،یہ روایت چودہ بالوں والی ہے شمار میں اختلاف ہوسکتا ہے،اس روایت میں ہے کہ سر مبارک میں چودہ بال سفید تھے،داڑھی شریف میں پانچ بال اور ریش بچی میں ایک بال سفید۔

۹؎ پہلے گزر چکا کہ حضور انور درمیانہ قد تھے مائل بہ درازی یہ قد بہت حسین ہوتا ہے۔

۱۰؎ رنگت سفید جس میں سرخی پلائی ہوئی اور وہ جگمگاتی ہوتی تھی یہ حسن کی انتہا ہے۔

جس سے تاریک دل جگمگانے لگے 		اس چمک دار رنگت پہ لاکھوں سلام

۱۱؎ بالوں کی درازی میں چار روایتیں ہیں: نصف کان تک،کانوں کی گدیوں تک،کانوں اور کندھوں کے درمیانی تک، کندھوں تک،ان میں تعارض نہیں کبھی تابگوش کبھی تابدوش مختلف اوقات میں مختلف حالات تھے۔حضور انور بال کٹواتے تھے اور سواء حج وعمرہ کے کبھی منڈواتے نہیں تھے۔

۱۲؎ چھوٹا سر کم عقلی کی علامت ہوتی ہے اور بہت بڑا سرحسین نہیں ہوتا درمیان سر قدرے بڑا بہت حسین ہے وہ ہی یہاں مراد ہے۔شعر

ہر چہ اسباب جمال است رخ خوب ترا		ہمہ بروجہ کمال است کما لایخفی	(۱شعہ)

۱۳؎ بھاری قدم بہادری ثابت قدمی اور عبادت میں طاقت کی دلیل ہیں،پتلے دبلے قدم کمزوروں کی علامت ہے،یوں ہی تلوے اندر کو دھنسے ہونا حسن کے خلاف ہے کہ زمین پر صرف کنارہ قدم لگے باقی الگ رہیں پورا قدم زمین کو لگے، بھرے قدم ہوں یہ حسن ہے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قدم شریف ایسے ہی تھے۔اعلٰی  حضرت قدس سرہ فرماتے ہیں۔شعر

دل کرو ٹھنڈا مرا وہ کف پا چاند سا		سینہ پہ رکھ دو ذرا تم پہ کروڑوں درود

۱۴؎ یعنی آپ کا حسن کما حقہٗ میں بیان نہیں کرسکتا بس اتنا سمجھ لو کہ میری آنکھوں نے نہ آپ سے پہلے حسین دیکھا نہ آپ کے بعد۔حضرت انس کی آنکھ تو کیا دیکھتی جناب جبرئیل امین کی آنکھوں نے ایسا نہ دیکھا۔شعر

معراج میں جبرئیل سے کہنے لگے شآہِ امم 		 تم نے تو دیکھے ہیں بہت بتلاؤ تو کیسے ہیں ہم

روح الامین کہنے لگے اے مہ جبین تیری قسم		 آفاقہا گردیدہ ام مہر بتاں درزیدہ	 ام

بسیار خوباں دیدم ام لیکن تو چیزے دیگری

۱۵؎ کشادہ ہتھیلی علامت ہے جودوسخا کی حضور جیسا سخی پیدا نہ ہوا نہ ہوگا۔عرب کہتے ہیں عبدالکف بخیل و سبط الکف جواد تنگ ہتھیلی والا کنجوس ہوتا ہے،وسیع ہتھیلی والا سخی داتا۔

۱۶؎ خیال رہے کہ حضور انور کے دستِ مبارک قدم شریف تھے تو بھاری مگر کھال مبارک نہایت نرم تھی جیساکہ روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء ریشم سے بھی زیادہ نرم تھے۔نرمی اور چیز ہے بھاری ہونا کچھ اور یہ بھی خیال رہے کہ ہاتھ پاؤں بھاری ہونا مردوں میں ہنر ہے عورتوں میں عیب ہے کیونکہ مردوں کے مضبوط اعضاء بہادری کی علامت ہیں عورتوں کے اعضاء نازک چاہئیں۔(مرقات)
Flag Counter