۱؎ لفظ اللہ اور لفظ محمد میں چند طرح مناسبت ہے: اللہ میں حرف چار تو محمد میں حرف چار،اللہ کے چاروں حرف بے نقطہ محمد کے چاروں حرف بے نقطہ،اللہ میں ایک شد محمد میں ایک شد،اللہ کے تین حرف حرکت والے محمد کے تین حرف حرکت والے،ہاں اللہ کے شد پر الف ہے محمد کے شد پر الف نہیں،اللہ سلطان حضور اس سلطنت کے وزیر اعظم،اللہ بولنے سے دونوں ہونٹ جدا ہوتے ہیں محمد بولنے سے دونوں ہونٹ مل جاتے ہیں کہ وہ نیچوں کو اوپر والوں سے ملانے ہی تو آئے ہیں۔
۲؎ مقفی اسم فاعل سب نبیوں سے پیچھے دنیا میں آنے والا،مقفی اسم مفعول سب نبیوں تمام انسانوں ساری مخلوق سے آگے رہنے والا کہ میرے نقش قدم پر سب چلنے والے یا مقفی اسم سب کی مہمانی کرنے والا کہ دنیا اس کی مہمان ہو وہ سب کا میزبان،قفاوہ کہتے ہیں لطف و کرم مہمانی کے کھانے کو۔(مرقات)
۳؎ اس طرح کہ میرے ہاتھ پر ساری خلقت نے توبہ کی اور کرے گی یا میرے دین میں توبہ آسان کردی گئی یا میری برکت میرے صدقہ سے حضرت آدم و دیگر نبیوں کی توبہ قبول ہوئی ان کی مشکلیں حل ہوئیں۔شعر
اگر نام محمد را نہ آوردے شفیع آدم نہ آدم یافتے توبہ نہ نوح از غرق نجینا
یا جو میرے دروازے پر آجاوے رب کو تواب و رحیم پائے"لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا"۔
۴؎ حضور کی رحمت عامہ تمام جہان پر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے دنیا میں عذا ب آنا بند ہوگئے رحمت خاصہ مؤمنوں پر رحمت خاص الخاصہ ولیوں،صدیقوں بلکہ گذشتہ نبیوں پر بھی ہے،اللہ رب العالمین ہے حضور رحمۃ للعالمین،حضور مؤمنوں پر رؤف ورحیم۔شعر
رب اعلٰی کی نعمت پر اعلی درود حق تعالٰی کی منت پہ لاکھوں سلام
حضور کی رحمت کا پورا بیان ناممکن ہے۔