۱؎ یعنی ہم میں تم میں شرعی احکام میں بھی فرق ہے کہ تم میں سے جوشخص امیر ہو اس پر قربانی فرض نہیں بلکہ واجب ہے،غریب پر واجب بھی نہیں مگر ہم پر بہرحال فرض ہے۔خیال رہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم پر زکوۃ فرض نہیں(شامی)یا اس لیے کہ آپ کا مال وقف ہے اور وقف میں زکوۃ نہیں(شامی)یا اس لیے کہ ساری امت حضور صلی الله علیہ وسلم کی لونڈی غلام ہے اور اپنے غلام لونڈی کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی آپ کے لیے مصرف موجود نہیں۔(شیخی و مرشدی مولانا نعیم الدین صاحب)فقیر کے نزدیک یہ وجہ قوی ہے ورنہ آپ پر قربانی فرض نہ ہوتی،مال وقف سے قربانی نہیں دی جاتی حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمان اس آیت کی طرف اشارہ ہے"فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ"۔
۲؎ حضور صلی الله علیہ وسلم پر چھ نمازیں فرض تھیں پانچ تو یہ نمازیں چھٹی نماز تہجد،رب فرماتاہے:"وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ"آیت کریمہ میں نافلہ بمعنی زائدہ ہے یعنی مسلمانوں پر پانچ نمازیں فرض ہیں آپ پر نماز تہجد زائد فرض ہے۔چنانچہ ہمارے لیے ارکان ایمان پانچ ہیں حضور صلی الله علیہ وسلم کے لیے چار یعنی زکوۃ فرض نہیں، ہم پر نمازیں پانچ حضور صلی الله علیہ وسلم پر چھ یعنی تہجد بھی فرض ہے۔خیال رہے کہ پنجگانہ نمازیں اطاعت کی ہیں جو ہمارے لیے آئیں اور نماز تہجد نماز عشق ہے جو حضور انور صلی الله علیہ وسلم کے لیے آئی۔ہم حضور صلی الله علیہ وسلم کی طفیل یہ نماز پڑھ لیتے ہیں اور نماز چاشت حضور صلی الله علیہ وسلم پر ایک بار پڑھنا فرض تھی اس کی زیادتی مستحب تھی لہذا یہ حدیث اس کے خلاف نہیں کہ حضور انور صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کبھی ہی نماز چاشت پڑھی ہے۔