مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت ابو ذر غفاری سے فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول الله صلی الله علیہ وسلم آپ نے کیسے جانا کہ آپ الله کے نبی ہیں حتی کہ آپ نے یقین کرلیا ۱؎ تو فرمایا اے ابو ذر میرے پاس دو فرشتے آئے جب کہ میں مکہ کے بعض پتھریلے علاقہ میں تھا۲؎ تو ان میں سے ایک تو زمین کی طرف آگیا اور دوسرا آسمان و زمین کے درمیان رہا۳؎ تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کیا یہ وہ ہی ہیں۴؎ اس نے کہا ہاں اس نے کہا کہ انہیں ایک شخص سے تولو ۵؎ میں اس سے تولا گیا تو میں وزنی ہوا ۶؎ پھر اس نے کہا کہ انہیں دس سے تولو تو میں ان سے تولا گیا میں ان پر وزنی ہوا،پھر اس نے کہا کہ انہیں سو سے تولو میں ان سے تولا گیا میں ان پر بھاری ہوا۷؎ وہ بولا انہیں ہزار سے تولو میں ان سے تولا گیا تو میں ان پر بھاری ہوگیا گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ پلہ ہلکا ہونے کی وجہ سے مجھ پرگرے پڑتے ہیں ۸؎ تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم انہیں ان کی پوری امت سے تولو تو بھی یہ سب پر بھاری ہوں گے ۹؎ (دارمی)
شرح
۱؎ یعنی حضور آپ نے دنیا میں آکر اپنی نبوت یہاں کے کس سبب سے جانی پہچانی لہذا یہ سوال ان احادیث کے خلاف نہیں جن میں ہے کہ ہم اس وقت نبی تھے جب آدم علیہ السلام آب و گل میں تھے یا بچپن شریف میں ہم کو شجر و حجر سلام کرتے تھے آپ کی،نبوت کا اعلان آپ کی ولادت پاک سے پہلے ہوچکا تھا،دنیا بھر نے آپ کو نبی جان لیا تھا۔ پڑھو وہ معجزات جو حمل شریف اور ولادت پاک کے وقت تمام دنیا میں ظاہر ہوئے،رب فرماتاہے:"یَعْرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوۡنَ اَبْنَآءَہُمۡ"انسان اپنے بیٹے کو اس کی ولادت سے پہلے ہی جانتا ہے۔ ۲؎ غالبًا یہ واقعہ بہت ہی بچپن شریف کا ہے۔جب حضور حلیمہ دائی کے یہاں تھے یا اس کے کچھ بعد جب بکریاں چراتے تھے۔بطحاء کہتے ہیں پتھریلے علاقہ کو مکہ معظمہ کے آس پاس تمام علاقہ پتھریلا ہے۔ ۳؎ یعنی ہوا میں یا فضا میں معلق رہا میں نے اسے اسی طرح دیکھا مگر حضور یہ عجیب نظارہ دیکھ کر دوڑے نہیں۔معلوم ہوا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے انہیں پہچان لیا کہ یہ فرشتے ہیں اس لیے فرمایا اتانی ملکان۔ ۴؎ یعنی کیا یہ وہ ہی نبی ہیں جن کا اعلان فرشتوں میں کیا جاچکا ہے،جن پر ایمان لانے کا عہد وپیمان نبیوں سے ہمارے سامنے لیا جاچکا ہے،جن کی دعائیں جناب خلیل نےمانگی ہیں،جن کی بشارتیں جناب مسیح نے دی ہیں،جن کے مدرسہ فیض میں سارے نبی تعلیم پاکر دنیا میں آتے رہے جو آگے چل کے سارے جہان کا سہارا،مؤمنوں کی آنکھوں کا تارا ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ ۵؎ اگر امت سے مراد امت مرحومہ ہے تو شاید حضور انور کو جناب صدیق و فاروق کے ساتھ تولا گیا ہوگا اور اگر مطلقًا امت ہے تو حضور کو جناب خلیل و کلیم کے ساتھ تولا گیا ہوگا،یہ ترازو بھی کوئی اور ہی تھا اور تولنے والے ہاتھ بھی دست قدرت ہی ہوں گے۔ ۶؎ یہ وزنی ہونا نبوت کے وزن سے ہوا نبوت بڑی وزنی نعمت ہے۔ ۷؎ حضور صلی الله علیہ وسلم کو ترتیب وار تولنا کہ پہلے ایک شخص سے پھر دس سے پھر سو سے یہ بھی حضور صلی الله علیہ وسلم کی شان دکھانے کے لیے ہے ورنہ اگر پہلے ہی ہزار سے تول دیا جاتا تو یہ بات ظاہر نہ ہوتی۔ ۸؎ یعنی جب ترازو کے ایک پلہ میں دو ہزار رکھے گئے اور دوسرے پلہ میں ہم تشریف فرما ہوئے تو ان سب کا پلہ ہلکا ہونے کی وجہ سے اتنا اونچا ہوگیا کہ وہ آسمان سے باتیں کرنے لگا۔خیال رہے کہ یہاں جسمانیت کا وزن تھا جس میں ہلکا اونچا ہوتا ہے بھاری نیچا،روحانیت کے وزن میں ہلکا نیچا ہوتا ہے بھاری اونچا کہ جسم کا رجحان نیچے کی طرف ہے کہ وہ مادی چیز ہے اور نورانیت کا رجحان اوپر کی طرف ہے کہ وہ مجرد ہے جیساکہ روایات میں ہے لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ یہاں ہلکا پلہ اونچا کیوں ہوگا،رب تو فرماتاہے:"اِلَیۡہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ"۔ ۹؎ خیال رہے کہ یہ تو حضور انور کا ظاہری وزن تھا حقیقی وزن کا یہ حال ہے کہ کارخانہ قدرت میں ایسی ترازو نہیں بنی جو حضور کا ایک سجدہ بھی تول سکے جیسے کسی انسانی کارخانہ نے ایسی ترازو نہ بنائی جو سمندر کا پانی یا ہوا تول سکے،ایسا میٹر نہ بنایا جو سورج کی روشنی ناپ لے تو کارخانہ قدرت نے ایسی ترازو نہ بنائی جو حضور صلی الله علیہ وسلم کے اعمال تول لے اس لیے قیامت میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے اعمال کا وزن نہ ہوگا کہ وزن کس ترازو سے کیا جاوے وہ ترازو کہاں سے آئے کارخانہ قدرت میں تو بنی نہیں۔حدیث شریف میں ہے کہ ایک گنہگار کے تاحدِ نظر گناہوں کے دفتر ایک ڈیڑھ ماشہ پرچہ کے ساتھ تولے جائیں گے جس پر لکھا ہوگا لا الہ الا الله محمد رسول الله تو پرچہ بھاری ہوگا وہ لاکھوں من کے دفتر ہلکے کیوں نہ ہوں کہ وہ تھے اس کے کام،یہ ہے الله رسول کا نام ہمارے کاموں سے ان کا نام بھاری ہے۔شعر دل عبث خوف سے پتّہ سا اڑا جاتا ہے پلہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسہ تیرا اگر قیامت کے دن حضور ساری امت کے ہلکے پلے میں اپنا قدم رکھ دیں تو قسم خدا کی سب کا پلہ بھاری ہوجائے اور سب کے بیڑے پار لگ جاویں اللھم صل وسلم و بارك علیہ۔