روایت ہے حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے فرمایا کہ الله تعالٰی نے حضور محمد صلی الله علیہ وسلم کو سارے نبیوں پر اور سارے آسمان والوں پر بزرگی دی ۱؎ لوگوں نے کہا کہ اے ابن عباس آسمان والوں پر کس طرح بزرگی دی فرمایا کہ الله تعالٰی نے آسمان والوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو کہے گا کہ میں الله کے سوا معبود ہوں ۲؎ تو یہ وہی ہوگا جسے ہم دوزخ کی سزا دیں گے ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ۳؎ اور الله تعالٰی نے حضور محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کے لیے فرمایا کہ ہم نے آپ کے لیے روشن فتح دی ۴؎ کہ آپ کے صدقہ سے آپ کی امت کے اگلے پچھلے گناہ الله بخشے ۵؎ لوگوں نے کہا کہ نبیوں پر کیسے بزرگی دی فرمایا کہ الله تعالٰی نے فرمایا ہے کہ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ان کی قوم کی زبان میں۶؎ تاکہ وہ ان کے لیے بیان کریں تو الله جسے چاہے گمراہ کرے آخر آیت تک اور محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم سے فرمایا کہ ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر سارے لوگوں کے لیے کافی ۷؎ تو حضور کو جن و انسان کی طرف بھیجا ۸؎
شرح
۱؎ یعنی فرشی عرشی ساری مخلوق سے حضور انور کو الله نے افضل کیا،حضور خیر الخلق کلھم ہیں۔ ۲؎ یعنی جو فرشتہ دعویٰ خدائی کرے گا ہم اسے دوزخ میں ڈالیں گے۔یہ فرمان فرضی صورت پر ہے جیسے قرآن فرماتا ہے کہ اگر خدا کے بیٹا ہوتا تو اسے پہلے میں پوجتا۔فرشتے گناہ بھی نہیں کرسکتے چہ جائیکہ دعویٰ خدائی کریں یہ خوب خیال رہے۔ ۳؎ یعنی فرشتوں کے متعلق یہ فرمان عالی قہر و غضب پر مبنی ہے جس سے انہیں خو ف و ہراس ہو۔ ۴؎ فتح سے مراد یا فتح مکہ ہے یا رحمت کے تمام دروازے حضور کے لیے کھولنا مراد ہے یا یہ مطلب ہے کہ رب نے آپ کے ذریعہ سب دروازے کھول دیئے۔اس کی نفیس تحقیق ہمارے حاشیۃ القرآن میں دیکھو۔ ۵؎ یعنی حضور انور سےرب تعالٰی نے رحمت و کرم بندہ نوازی والا کلام فرمایا الله کی رحمت اس کےغضب پر غالب ہے۔ خیال رہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم گناہ تو کیا گناہ کے ارادے سے بھی محفوظ ہیں لہذا ذنبك سے مراد وہ گناہ ہیں جن کا بخشوانا حضور صلی الله علیہ وسلم کے ذمہ کرم پر ہے یعنی امت کے گناہ۔اس کی نفیس تحقیق ہماری تفسیر میں ملاحظہ کرو۔ ذنبك کی تفسیریں اور بہت کی گئی ہیں۔تقدم اور تأخر سے مراد امت کے اگلے پچھلے گناہ ہیں۔ ۶؎ یعنی پچھلے نبیوں کی امتیں خاص ہوتی تھیں یوں ہی ان کے علاقے،ان کے زمانے مخصوص ہوتے تھے کہ اس کے باہر ان کی نبوت کا ظہور نہ ہوتا تھا۔دیکھو موسی علیہ السلام جب خضر علیہ السلام کے پاس پہنچے تو ان پر اپنے دین اپنی کتاب کے احکام جاری نہ کرسکے،جب ان کی نبوتیں خاص تھیں تو ان حضرات کی زبانیں بھی خاص تھیں وہ خاص اسی زبان میں تبلیغ فرماتے تھے،حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا فرمانا ان کا معجزہ تھا تبلیغ کے لیے نہ تھا۔ ۷؎ کافۃ یا تو ناس کا حال ہے تب تو ت تانیث کی ہے اور یا ارسلناك کے کاف خطاب سے حال ہے تو ت مبالغہ کی ہے جیسے علامۃ یا فہامۃ کی ت۔کافۃ بنا ہے کف سے بمعنی روکنا یا پورا ہونا،ناس سے مراد حضور انور کے زمانہ سے لے کر تا قیامت سارے انسان ہیں،حضور سب کے نبی ہیں اور سب پر حضور کی اطاعت واجب و لازم ہے۔رات میں ہر گھر کا چراغ علیحدہ ہوتا ہے مگر دن میں سارے جہاں کا سورج ایک اور ہوسکتا ہے ناس سے مراد ہوں سارے انسان از آدم علیہ السلام تا روز قیامت کہ سب کو حضور صلی الله علیہ وسلم ہی کا فیض پہنچا کسی کو بلواسطہ اور کسی کو بلاواسطہ،رات میں چاند تارے سورج ہی کا نور دنیا کو دیتے ہیں۔ ۸؎ اگرچہ مذکورہ آیت میں صرف انسانوں کا ذکر ہے مگر چونکہ جنات انسانوں کے تابع ہیں لہذا وہ بھی ان میں داخل ہیں بلکہ حضور انور ساری مخلوق کے نبی ہیں فرشتے وغیرہ سب آپ کی امت ہیں،رب فرماتاہے:"لِیَکُوۡنَ لِلْعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا"رب تعالٰی رب العالمین ہے حضور رحمۃ للعالمین بھی ہیں اور نذیر للعالمین بھی۔خیال رہے کہ ہر نبی اپنی قوم کی زبان سے واقف بھیجے گئے ساری مخلوق حضور کی امت ہے لہذا حضور سب کی زبان جانتے ہیں۔حضور سے اونٹوں، چڑیوں نے فریادیں کی ہیں،پتھر سلام کرتے تھے،لکڑی کا ستون حنانہ حضور کے فراق میں رویا،آپ سے دل کا دکھ درد کہا اور حضور نے سب کچھ سمجھ لیا۔آج حضور صلی الله علیہ وسلم کے دروازے پر ہر شخص اپنی بولی میں حضور سے فریادیں کرتا ہے کوئی ترجمہ کرنے والا درمیان میں نہیں ہوتا،سب کی سنتے سمجھتے ہیں سب کی دادا رسی فریاد رسی کرتے ہیں یہ ہے حضور کا سب زبانیں جاننے کا ثبوت اللہم صل وسلم بارك علیہ۔شعر قدرت کی تحریریں جانے امی اور تقریریں جانے بخشش کی تدبیریں جانے وہ ہے رحمت والا جن کا نام ہے محمد ان سے دو جگ ہے اوجیالا